تحریر : ارشاد حسین ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں تہذیبی ورثوں کی کوئی قدر نہیں کی جاتی ہے۔ ناجانے کتنے ہمارے قیمتی آثاثے تباہی سے دوچار ہوئے اور ہم ان کی تباہی کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر پائے۔حفاظت ہمیشہ ان چیزوں کی کی جاتی ہے جنہیں ہم اپنا سمجھتے ہیں لیکن ہم نے آثار قدیمہ کو کبھی بھی اپنا نہیں سمجھا اور ان کی پامالی اور تباہی پر ہمیشہ خاموش رہے ہیں۔
اس کی بھی ایک وجہ ہے کہ ہمیں ان چیزوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی ہماری حکومتوں کو ان چیزوں میں دلچسپی ہوتی ہے کہ آثار قدیمہ کی حفاظت کیوں اور کیسے کی جائے۔محکمہ آثار قدیمہ کی غفلت کے باعث ایک ایسا ہی شہر کے کھنڈرات جو دلورائے کے ٹھیڑ کے نام سے جانے جاتے ہیں اب اس کے اثار فصلیں کاشت کرکے مٹائے جارہے ہیں۔
دلورائے کا ٹھیڑ کے کھنڈرات ضلع راجن پور کی تحصیل جام پور سے 3کلو میڑ کی دوری پر واقع ہیں ۔سرائیکی لوگ داستانوںاور تاریخی کتب کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہے کہ ‘ دلورائے ” قدیم سندھ کا ایک راجہ تھا ۔جس نے موجودہ ضلع راجن پور میں شہر آباد کیا تھا جو اب بھی اس نام سے جانا جاتا ہے لیکن 2340 سال پہلے یہ شہر تباہ ہوگیا تھا اور اس شہر کے صرف کھنڈرات موجود ہیں۔دلورائے کا شہر دریا سے بیس فٹ اونچائی پر بنایا گیا تھاتاکہ دریا ئے سندھ اس شہر کو تباہ نہ کرسکے۔پانی تو واقعی کچھ نہ بگاڑ سکا لیکن دلورائے کے شہر کو زلزلہ یا آگ کھا گئی ۔یہ شہر کیسے تباہ ہوا اس کے بارے میں بھی تاریخ دانوں کی مختلف اراء ہیں بعض کے مطابق یہ شہر زلزلے کی وجہ سے تباہ ہو ااور بعض کے مطابق آگ نے اس شہر کو اپنے لپیٹ میں لے لیا تھا تاہم وہ اس شہر کی تباہی کے بارے میں جامع وجہ بیان نہ کرسکے۔
Sindh Archaeology
اس شہر کے آثار بیسیوں ایکڑ رقبہ پر پھیلے ایک ٹیلے کی شکل میں آج بھی موجود ہیں۔دلورائے کے کھنڈرات کو وادی ِ سندھ کی تہذیب کانمائندہ بھی سمجھا جاتاہے کیونکہ ان کھنڈرات سے ملنے والے نوادرات ٹیکسلا اور ہڑپہ کی تہذیب کے دور کے دکھائی دیتے ہیں۔سات ہزار سال پہلے دریائے سندھ اس شہر کے مغرب میں بہتا تھا ۔شہر کے چاروں اطراف ملنے والے آثار اس شہر کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔یہاں سے کھدائی کے دوران مٹی اور پتھر کی مورتیاں بھی ملی ہیں جو آریائی دور کی تہذیب کی نشاندہی کرتی ہیں۔یہاں سے ملنے والے نوادرات میں پختہ پیالوں پر دیوتائوں کی تصاویر ،یونان و روم کے تہذیبی نقش ونگارشامل ہیں ۔تاریخ دانوں کے مطابق سکنداعظم دلورائے کے کھنڈرات سے گزرتا ہوا ملکہ نوشابہ کے پایہ تخت ہڑند پہنچا ۔راجہ کنشن کے عہد کے سکے اور مہریں بھی ان کھنڈرا ت سے ملی ہیںجو اس خطے کے تہذیبی قدامت کی گواہی دیتی ہیں۔
انتظامیہ کی غفلت کے باعث اردگرد کے لوگوں ان کھنڈرات کو آہستہ آہستہ اپنی زرعی زمینوں میں شامل کررہے ہیں اور محکمہ آثار قدیمہ ان کھنڈرات کی تباہی پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔اگر یہی حال رہا تو ہم عہد حاضر کے ایک قیمتی خزانے سے محروم ہوجائی گے۔ان کھنڈرات کے بارے میں جناب عباس برمانی صاحب نے کچھ یوں ارشاد فرمایہ تھا۔
کچھ ہڑ ند کی ٹھیکریاں کچھ کنکر کوہ سلیمان کے اک مورتی دلو رائے کی اور تھل کی ریت کی ایک مٹھی کچھ پَر سیلانی کونجوں کے جو سندھ ساگر پر اْتری تھیں اور ایک شکستہ بانسری ہے دمان کے کسی چرواہے کی دو سینگھ اک پیاسے آھو کے جو روہی بن میں قتل ہوا اک گٹھڑی ٹوٹے وعدوں کی اک خالی کاسہ سپنوں کا یہی عمر سے ہم نے پایا ہے یہی اپنا کل سرمایہ ہے