تحریر: رانا عبدالرب دور جدید میں دور قدیم کی روایات سے جڑے لوگ جنہیں آج تک نفرت، عداوت اور منافقت نے چھوا ہی نہ تھا۔ وہ تو گلے میں تعویز محبت پہنے امن پورہ کے رہائشی تھے جہاں ایک طرف پیار کی مدھر سی آواز گائوں والوں کے کانوں کے پردوں سے ٹکراتی تو دوسری طرف عشق گھنگھرو پہنے ناچتا تو رات کی سیاہ تاریکی بھی انہی گائوں والے کے سامنے دبے پائوں گزر جاتی۔ ایک طرف سورج تاریکی کو اپنی بانہوں میں لینے کو تیار ہوتا تو دوسری طرف گائوں والے بوڑھے شیشم کے درخت کے نیچے چوپال کی تیاری شروع کر دیتے۔
جوں جوں تاریکی بڑھتی جاتی گائوں والوں کا ہجوم بھی بڑھتا جاتا۔ہر طرف قہقہے گونجتے،محبت کے نغمے گائے جاتے۔انہی ہجوم میں کہیں روشن دین بھی بیٹھا ہوتا وہ بزرگوں کی باتیں بغور سنتا ۔کبھی کبھی اپنا نقطہ نظر بھی بیان کرتا۔امن پورہ میں ایک درخت ایسا تھا جہاں لوگ جا کر منتیں مانگتے ،چڑھاوے چڑھاتے،نذرو نیاز کا خاص اہتمام کیا جاتا کیوں کہ گائوں والوں کا ماننا تھا کہ یہ درخت ہی اسی گائوں کی بقا کا ضامن ہے۔اس درخت کو وہ خالصتاً محبت کا درخت مانتے تھے کیوں کہ ان کا عقیدہ تھا کہ اس درخت کو امن پورہ کے گائوں والوں نے اپنے آنسوئوں کے پانی اور عشق کی نیازدے کر بڑا کیا ہے۔روشن دین بھی حسب روایت ہر روز اسی درخت پرآنسوئوں کے پانی اور عشق کی نیاز چڑھا کر آتا۔
ایک دن روشن دین محبت کے درخت کے قریب گیا تودرخت کے نیچے ایک اجنبی شہری جس کے بالوں میں چاندی تیر رہی تھی، زارو قطار رو رہا تھا۔روشن دین کے وجہ پوچھنے پراجنبی نے بتایا :”محبت کو بڑھاپے کی دیمک چاٹ رہی ہے، نفرت جوان ہورہی ہے،میں ابھی شہر سے آیا ہوں”ابھی بزرگ نے اپنی بات مکمل ہی نہ کی تھی کہ روشن دین نے کہا بزرگو! آپ فکر نہ کریں، یہ کوئی عام درخت نہیں بلکہ محبت کا درخت ہے جسے ہم نے اپنے آنسوئوں کے پانی اور عشق کی نذرونیاز دے کر پروان چڑھایا ہے۔آپ آئیں میرے ساتھ، میرے گھر چلیں ۔شہری بابو کا ہاتھ تھامتے ہوئے روشن دین نے کہا۔
Darkness
یوں رات نے دن کی روشنی کو اپنی آغوش میں لے لیا۔شہری بابو آرام سے سو گیا لیکن روشن دین گھر کے آنگن میں چاند کی چاندنی کو تکتے تکتے ایک ہی بات سوچے جا رہا تھا: ”محبت کو بڑھاپے کی دیمک چاٹ رہی ہے، نفرت جوان ہورہی ہے،میں ابھی شہر سے آیا ہوں”اتنے میں صبح نے ایک بار پھر تاریکی کے آرام میں خلل ڈالتے ہوئے رات کے دروازے پر دستک دی اور یوں صبح ہو گئی۔روشن دین بزرگ کے لیے مکھن،دیسی گھی سے چوپڑی روٹی دہی اور شکر کا ناشتہ لے کر بیٹھک میں گیا توشہری بابومر چکا تھا۔اسی روز شہری بابو کا امن پورہ کے لوگوں نے جنازہ ادا کیا۔رات کو ایک بار پھر چوپال سجا اور وہاں روشن دین نے سارا ماجرا گائوں والوں کو بتایا ۔گائوں والوں میں سے ایک بزرگ نے کہا کہ اس سے پہلے کہ خدا کا عذاب ہمیں آ گھیرے ہمیں محبت کے درخت پر نذرو نیاز چڑھانی چاہیے تاکہ نفرت کبھی بھی اس گائوں میں آکے ڈیرے نہ لگا لے۔ یوں سب نے بزرگ کے کہنے پرآنسوئوں کے پانی اور عشق کی نیاز دی۔کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ نذرو نیاز اور چڑھاوے چڑھانے سے ہر مشکل ختم ہو جاتی ہے۔
روشن دین تھا کہ وہ ابھی بھی شہری بابو کی اسی بات کو من ہی من میں سوچے جا رہا تھا کہ”محبت کو بڑھاپے کی دیمک چاٹ رہی ہے ،نفرت جوان ہورہی ہے،میں ابھی شہر سے آیا ہوں”۔سوچتا سوچتا روشن دین سڑک کے کنارے آ پہنچا اور سڑک کے کنارے پر بیٹھ گیا۔روشن دین شہری بابو کی بات کی گہرائی اور گیرائی تک پہنچنے ہی والا تھا کہ اتنے میں ہارن بجا،روشن دین نے مڑ کر دیکھا تو بس تھی جو امن پورہ سے شہر کی جانب جایا کرتی تھی۔بس نے روشن دین کے پاس آ کر بریک لگائی” شہر جانا ہے؟”بس کنڈیکٹر نے روشن دین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔روشن دین تھا کہ محبت کو بڑھاپے کی دیمک چاٹ رہی ہے، نفرت جوان ہورہی ہے،میں ابھی شہر سے آیا ہوں”سوچتے سوچتے بس میں بیٹھ گیا اور بس شہر کی طرف روانہ ہوگئی۔
Loved
چلو بھئی چلو لاری اڈہ آ گیا۔۔۔۔۔چلو شاباش ۔۔۔۔۔جلدی جلدی اترو۔۔۔۔۔کنڈیکٹر زور زور سے آوازیں لگا رہا تھا۔روشن دین جوں ہی بس سے نیچے اترا تو سامنے ہی ایک سائن بورڈ لکھا ہوا تھا”اپنی شناخت کروائیں۔۔۔اگر کوئی شخص مشکوک نظر آئے تو اس نمبرپر رابطہ کریں”روشن دین نے سائن بورڈ پڑھتے ہی ایک پینٹ شرٹ میں ملبوس شخص کو روکا اور پو چھا بھئی ۔۔۔۔ مشکوک شخص سے کیا مراد ہے ؟مذکورہ شخص نے کہا”میرے پاس فالتو کا ٹائم نہیں۔پتہ نہیں کہاں کہاں سے منہ اٹھائے چلے آتے ہیں۔۔۔۔۔۔جائو اپنا کام کرو۔۔۔۔جاہل کہیں کے”روشن دین کو ان باتوں پر غصہ نہیں بلکہ اس نے معذرت کرتے ہوئے کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ مذکورہ شخص بہت دور جا چکا تھا۔روشن دین پیدل چلتا رہا اور سوچتا رہا کہ”محبت کو بڑھاپے کی دیمک چاٹ رہی ہے، نفرت جوان ہورہی ہے،میں ابھی شہر سے آیا ہوں”اتنے میں شہری کے وسط میں واقع ایک تعلیمی درسگاہ کے سامنے روشن دین رک گیا۔
تعلیمی درسگاہ کے اندر داخل ہونے لگا تو گیٹ کیپر نے کہا ”کہاں سے آئے ہو؟کس سے ملنا ہے؟”روشن دین کے منہ سے نکلا ”محبت کو بڑھاپے کی دیمک چاٹ رہی ہے اور نفرت جوان ہورہی ہے،میں ابھی شہر سے آیا ہوں”عجیب پاگل شخص ہے جائو جائو ۔۔۔۔۔فضول کی بکواس کہیں اور جا کر سنائو۔گیٹ کیپر نے روشن دین بات سنتے ہی جواب دیا۔یوں روشن دین دن بھر اسی سوال کا جواب شہر میں تلاش کرتا رہا مگر اسے سوائے نفرت اورحقارت کے کچھ نہ ملا آخر کار تھک ہار کر وہ واپس لاری اڈہ آیا کہ وہ اپنے گائوں امن پورہ واپس جا سکے۔
گاڑی میں بیٹھا اور راستے پھر وہ یہی سوچتا رہا”محبت کو بڑھاپے کی دیمک چاٹ رہی ہے اور نفرت جوان ہورہی ہے،میں ابھی شہر سے آیا ہوں”۔اتنے میں سورج غروپ ہونے والا تھا کہ روشن دین کا گائوں آ گیا۔روشن دین بس سے نیچے اترا توگائوں نفرت کے سیلاب میں بہہ چکا تھا اور جہاں محبت کا درخت ہوا کرتا تھا وہاں گدھ محبت کی نعش کو نوچ رہے تھے اور روشن دین کھڑا، رگوں میں کرب،درد،دکھ اور چبھن لیے سوچ رہا تھا کہ ”محبت کو بڑھاپے کی دیمک چاٹ رہی ہے اور نفرت جوان ہورہی ہے،میں ابھی شہر سے آیا ہوں”۔۔۔۔۔۔۔۔