تحریر : محمد شہزاد اسلم راجہ پہلی مرتبہ مزدور کے وسیع اور جامع ترین حقوق کا تعین اسلام نے کیا ، محنت کش کی عزت ، عظمت اور اہمیت کا اندازہ اس حدیث شریف سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محنت کش کو اللہ کا دوست قرار دیا ”الکاسب حبیب اللہ” ۔ اسی طرح دین ِ اسلام ہی کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہ مزدوروں کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے، مزدور کے حقوق کی منج کا اندازہ اس حدیث شریف میں پوشیدہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو”زمانہ قبل از اسلام میں مزدوروں کے ساتھ جو حق تلفی زیادتی ہوا کرتی تھی وہ تاریخ کی کتاب میں بخوبی مرقوم ہے۔
دنیا کے تقریباََ 80 ممالک میں آج یکم مئی مزدور ڈے کے حوالے سے منایا جا رہا ہے ۔ اس دن کا تب ہوا جب 1886 ء میں Haymarket میں ہونے والے قتلِ عام کے نتیجے میں شکاگو کے ایک شخص نے پولیس پر ڈائنامایئٹ بم پھینکا جس کی وجہ سے ایک ہڑتال کے دوران پولیس کی ورکرز پر فائرنگ تھی۔1891 ء میں سکینڈ نیشنل کانگریس میٹنگ کے دوران اس دن کو منانے کے لئے مئی ڈے کا خطاب ملا ۔ اگر ہم یکم مئی کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں دنیا کے مختلف ممالک میں اس دن سے منسلک کسی نہ کسی یاد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ تاہم زیادہ تر ممالک میں یکم مئی لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ پاکستان میں 1972 ء میں مزدور پالیسی کا آغاز ہوا اور یکم مئی کو قانونی طور پر مزدوروں کی عید ”لیبر ڈے”کا خطاب دیا گیا۔
آج پاکستان (ILO) انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن کا ممبر ہے جس کا مقصد مزدوروں کو معاشی حقوق دینا اور انہیں ان کے حق کے بارے میں آگاہ کرنا ہے ۔یکم مئی کی پہچان اگرچہ مزدوروں کے دن کے حوالے سے ہے لیکن مزدوروں کی اکثریت اس دن کی اہمیت اور اپنے ان حقوق سے بے خبر ہے جن کی یاد یہ دن دلاتا ہے ۔ ہر سال کی طرح آج بھی ہمارے ملک میں غیر سرکاری اور سرکاری تقریبات منعقد ہوں گی اور معاشرے میں مزدوروں کے کردار کو سراہا بھی جائے گا لیکن ایک عام مزدور کو تو صرف اپنا کام کرنے میں ہی فائدہ نظر آتا ہے اس کو یومِ مئی سے کیا غرض ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یومِ مئی لیبر ڈے کی چھٹی گھر بیٹھ کر بڑے لوگ ہی منا سکتے ہیں ایک مزدور نہیں۔
Labor Day
آج 2015 ء میں یومِ مئی منانے والے مزدوروں کو کیا یہ احساس ہے کہ 1886 ء میں قربانیوں کے بعد ان کے حقوق کے حصول کا جو سفر شروع ہوا تھا وہ اس وقت معکوس سمت اختیار کر چکا ہے ۔کیونکہ غیر رسمی مزدوروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔پوری دنیا میں اس وقت مزدور طبقہ میں دو واضح گروپ رسمی اور غیر رسمی مزدوروں کے نام سے موجود ہیں ۔محنت کشوں کا اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے جدو جہد کا سفر صدیوں پر محیط ہے ۔موجودہ دور میں آٹو میٹک مشینوں ،تجارت اور معیشت کے بدلتے ہوئے رجحان نے غیر رسمی مزدرورں کی اصطلاح کو جنم دے کر محنت کشوں کو اسی مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے ان کا سفر شروع ہوا تھا ۔محنت کشوں نے بے شمار قربانیوں کے بعد جو حقوق حاصل کئے تھے وہ اب ان کی محنت کے ساتھ نہیں بلکہ ملازمت کے ساتھ وابستہ ہے۔
ابھی گزشتہ دنوں ہمارے خادمِ اعلیٰ صاحب کا فرمان تھا کہ مزدور کی کم سے کم اجرت جو مقرر کی گئی ہے اس پر عمل در آمد ہر صورت کیا جائے اور میں آپ کو بتاتا چلوں کہ حکومتِ وقت نے اس وقت مزدور کی کم از کم اجرت 12000/- روپے ماہانہ مقر ر کر رکھی ہے اور جس طرح ہمارے ہاں مہنگائی کا جن بے قابو ہوا پھرتا ہے اس سے تو ہمارا مزدور اتنی اجرت میں مہنگائی سے لڑتے ہوئے روز جیتا ہے اور روزمرتا ہے۔ صاحبو! ذرا غور کریں اگر ایک مزدورکا گھرانہ ٤افراد یعنی میاں بیوی اور٢ بچوں پر مشتمل ہو تو ان کے روزانہ گھر کا خرچہ کا اندازاََ تخمینہ کیا ہو گا۔
گھی،آٹا،دال/ سبزی ، صابن صرف، چینی ، چائے کی پتی ، دودھ اور دوسرے مصالحہ جات وغیرہ کا کم از کم خرچہ 500/- روپے ہو تو پورے مہینے کا خرچہ 15000/- روپے خرچہ بنے گا ۔ اس میں ماہانہ بجلی کا کا بل کم از کم 1000/- روپے اور گیس کا بل 500/- روپے آجائے تو کل اخراجات 15500/- روپے بنتے ہیں۔ ان اخراجات میں اس خاندان کا جوتی ، کپڑا، میڈیکل ، فروٹ ، برتن اور گھر کی باقی اشیاء شامل نہیں ہیں ۔ دکھ سکھ ، شادی غمی ان سب کے لئے ان کے پاس وسائل کہاں سے آئیں گے ؟ جبکہ کم از کم ماہانہ اجرت 12000/- مقرر ہے یعنی ”گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا”۔اب تو خادمِ اعلیٰ صاحب اس بڑھتی ہوئے مہنگائی کے پیشِ نظر مزدور کی کم از کم اجرت آدھا تولے سونے کے برابرکر دیں تب ہی مزدور طبقہ اس منگائی سے لڑ سکے گا اور اگر پھر بھی مزدور کا گزارا نہ ہوا تو اس میں مزدور کی اپنی کوتاہی ہو گی۔