تحریر : فیصل اظفر علوی شہر قائد کراچی پاکستانی معیشیت کی ریڑھ کی ہڈی ہونے کی حیثیت سے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے اور بانی پاکستان حضرت محمد علی جناح کے شہر کراچی کو روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، پچھلی دو دہائیوں سے شہر قائد کی روشنیوں کے دشمن ”نا معلوم” افراد نے نہ صرف کراچی بلکہ صوبے کے دیگر شہروں میں بھی اپن شر پسندانہ کارروائیوں سے شہریوں کا جینا دوبھر کیا ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے تمام تر حالات سے باخبر ہوتے ہوئے بھی اکثر ”نا معلوم” افراد کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں جس کی اصل وجہ قوم آج تک نہیں جان سکی یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ انہی نا معلوم افراد کی ”مہربانیوں” کے عوض ارباب اختیار و اقتدار کا کاروبار چل رہا ہے۔۔۔ایک عرصے سے کراچی میں ہونے والی تمام وارداتوں کی کڑیاں اگرچہ ”نا معلوم” افراد سے براہ راست جا کر ملتی آ رہی ہیں لیکن ”معلوم” افراد ان ”نا معلوم” افراد کی ”مہربانیوں” سے بے نیاز خواب خرگوش کے مزے لینے میں مصروف تھے
لیکن ملکی سلامتی کی ضامن خفیہ ایجنسیاں تمام تر کارروائیوں اور حالات سے باخبر نظر آرہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان رینجرز نے انٹیلی جنس اطلاعات پر منگل اور بدھ کی درمیانی رات عزیز آباد مکا چوک کے قریب ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی رہائش گاہ ”نائن زیرو” پر چھاپہ مار کر ایم کیو ایم کے رہنماء عامر خان اور جیو نیوز سے وابستہ صحافی ولی بابر کے قتل کیس اور عدالت سے سزا یافتہ مجرم فیصل عرف موٹا اور دیگر سزا یافتہ مجرموں سمیت متعدد کارکنان گرفتار کرکے تفتیش کیلئے نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا، موصولہ اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر ”نائن زیرو” سے آپریشن کے دوران پاکستان میں ممنوعہ اسلحہ ، دور بین، واکی ٹاکی سیٹ اور بھاری تعداد میں گولیاں بھی برآمد کی گئیں، جبکہ دوسری جانب ایم کیو ایم کے کارکنان نے نائن زیرو پر چھاپے کی اطلاع ملتے ہی پورے شہر میں ہنگامہ برپا کر دیا ، ایم کیو ایم کے سرکردہ لوگوں کا کہنا ہے کہ رینجرز نے بغیر پیشگی نوٹس اور وارنٹ کے مرکز پر چھاپہ مارا جو کہ غیر قانونی ہے، جبکہ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے حالیہ واقعے کے بارے میں لب کشائی کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ اور کارروائی قانون کے مطابق ہے۔
”نا معلوم” افراد کی جانب سے کارروائیاں ہوں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کسی بھی قسم کی کارروائی کی جائے تو اس کا خمیازہ کراچی کے شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے،ایسے حالات میں کراچی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کی کارروائیوں کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے معصوم شہریوں کی موت کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے؟کیا ایم کیو ایم، اے این پی، پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان جاری چپقلش کا خمیازہ بھگتنے کیلئے صرف کراچی کی عوام ہی باقی رہ گئی ہے؟ اگر ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز کی کارروائی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مصدقہ اطلاعات کے عین مطابق ہے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شواہد اور ثبوتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی کارروائی کا دائرہ کار بڑھانا چاہئے اور مجرموں کو سخت سے سخت سزا دلوانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور اس معاملے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے، متحدہ قومی موومنٹ کا نام اس سے قبل بلدیہ ٹائون سانحہ کیس میں بھی مرکزی حیثیت کے ساتھ لیا جاتا رہا ہے لیکن اس کیس پر مزید موثر کارروائی ابھی تک دیکھنے میں نہیں آئی، اگر ایم کیو ایم، اے این پی یا پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکنان شر پسندانہ کارروائیوں میں مصروف ہیں تو حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی مکمل چھان بین کرکے جرم ثابت ہونے پر انہیں الٹا لٹکایا جائے تا کہ مستقبل قریب اور مستقبل بعید میں ایسے عناصر کو عبرت حاصل ہو۔
Altaf Hussain
ایک طرف ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین لندن میں بیٹھ کر یہ بیان دے رہے ہیں کہ رینجرز اہلکار اسلحہ اپنے کمبلوں میں چھپا کر لائے اور دوسری جانب اپنے ہی بیان میں یہ اقرار بھی کر رہے ہیں کہ مطلوب افراد کہیں اور پناہ لیتے اور نائن زیرو کو خطرے میں نہ ڈالتے، گویا الطاف حسین کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ وہ مطلوب افراد کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ کہیں اور پناہ لیں ، یعنی ان کی گرفتاری پر ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین ”خوش” نہیں دکھائی دیتے، الطاف حسین کا یہ بھی کہنا ہے کہ رینجرز نے ایم کیو ایم سے ذاتی دشمنی بنا لی ہے، یعنی رینجرز کو کیا مصیبت آن پڑی کہ وہ اپنی جان بلا وجہ ذاتی عناد کی بنیاد پر جوکھم میں ڈالے؟؟؟الطاف حسین حالیہ واقعے پر مزید گے بیان دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” اگر نائن زیرو میں دہشت گرد موجود تھے تو رابطہ کمیٹی کو خود بتا دینا چاہئے تھا، جانے انجانے میں غلطیاں ہو جاتی ہیں اور کارکنوں سے غلطیاں ہو گئیں ، لیکن اگر کچھ کیا تھا تو آگے پیچھے ہو جاتے ، نائن زیرو کو مصیبت میں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟” الطاف حسین کے اس بیان سے صاف واضح ہے کہ وہ کارکنان کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ آگے پیچھے ہو جاتے ۔۔۔۔
یعنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹ اور رینجرز کی کارروائیوں کے حق بجانب ہونے کی وضاحت ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے اپنے بیان میں غیر دانستہ طور پر از خود ہی کر دی، کراچی کے موجودہ حالات پر کراچی بلکہ پورے پاکستان کی عوام قانون نافذ کرنے اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی جانب دیکھ رہی ہے کہ ان تمام واقعات اور ایم کیو ایم کے رہنمائوں کے بیانات کو مد نظر رکھتے ہوئے کتنی تیزی کے ساتھ اس معاملے کی تفتیش کو آگے بڑھایا جاتا ہے اور مجرموں کو سزا دی جاتی ہے، عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اب وقت ہے کہ ملک میں بد امنی پھیلانے والے عناصر چاہے وہ کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں ان کا جرم ثابت ہونے پر انہیں عبرتناک سزا دی جانی چاہئے،جبکہ عوام الناس کی بڑی تعداد اس وقت بھی پاک فوج کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہوئی نظر آ رہی ہے،
اکثر عوامی حلقوں کا کہنا ہے فوج کو شدت پسندی اور سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کے خاتمے کیلئے کھل کر میدان میں آنا چاہئے اور واقعتاََ اس وقت پورے ملک خاص طور پر کراچی کو شدت پسندی اور سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز سے پاک کرنے کیلئے فوج کی جانب سے ایک بڑے آپریشن کی ضرورت ہے جس میں مجرموں کو جرم ثابت ہونے پر بلا امتیاز الٹا لٹکایا جاسکے اور شہر قائد کو ایک بار پھر امن کا گہوارہ بناتے ہوئے روشنیوں کا شہر بنایا جا سکے۔