میں تیرے شہر کی بنیاد ہلا سکتا ہوں میں تیری آنکھ کی پتلی میں سما سکتا ہوں تُو جو چاہے تو کہیں اور نہ جا سکتا ہوں زندگی کیا ہے شب و روز کی الجھن کے سوا ایسی الجھن نہ کسی طور نبھا سکتا ہوں حاکمِ شہر تیری سطوتِ شاہی کی قسم میں تیرے شہر کی بنیاد ہلا سکتا ہوں مجھ کو انجامِ رہِ عشق کی پرواہ نہیں اپنی سُولی سرِ بازار اُٹھا سکتا ہوں میری جاں گسل مشقت کا صلہ دے ورنہ میں تیرے کھیت، یہ کھلیان جلا سکتا ہوں میں اگر قید ہوں زندانِ فراقت میں تو کیا یہ پرندے تو ہوائوں میں اڑا سکتا ہوں کوئی تدبیرِ جہاںبانی میسر ہی نہیں کیسے اِس سوئے مقدر کو جگا سکتا ہوں