شہر مدینہ منورہ

Medina

Medina

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
زمین پر جنت کا ٹکڑا مسجد نبوی ۖ میں ریا ض الجنہ، جس کے با رے میں سیّد عالم ۖ نے فرمایا میرے گھر اور منبر کا درمیانی ٹکڑا جنت کے باغیچوں میں سے ایک با غیچہ ہے اور میرا منبر میرے حو ض ( کوثر) پر ہو گا۔ میری زندگی کے ایمان افروز لمحات کہ میں نوافل ادا کر نے کے بعد ائر کنڈیشنڈ کی ٹھنڈی پھوار نر م و گداز مخملی قالین پر اِس سرور میں بیٹھا تھا جیسے میں نے کوہ ہما لیہ سر کر لیا ہوا دنیا بھر کے خزانے میرے پا ئوں تلے آگئے ہوں میں دنیا کا فا تح عالم بن گیا ہوں لیکن یہ سب تو اِس اعزاز کے سامنے کچھ نہیں جو اعزاز آج مجھے اِس مقدس جگہ پر نوافل پڑھ کر حاصل ہوا تھا ۔میں معصوم بچے کی طرح خو شگوار حیرت اور سر شاری سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا میں شہر مدینہ کی قسمت پر رشک کر رہا تھا اِس شہر کا اصل مکین سید المرسلین ۖ جس کی پا پو شی کا شرف عرش بریں بھی حاصل کر نا چاہتا ہے یہ شہر اپنے مقدر پر جتنا بھی ناز کر ے کم ہے کہ اِس کی آغوش میں قیا مت تک نو حِ انسانی کے سب سے بڑے انسان رسول خدا ۖ آرام فرما تے رہیں گے۔

مسجد نبوی ۖ کی عظیم الشان وسعت کو دیکھ کر مجھے چودہ صدیاں پہلے کی مسجد نبوی ۖ یاد آئی سید المرسلین ۖ نے جب یہاں مسجد بنا نے کی خوا ہش کی تو سہل اور سہیل نامی دو یتیم بچوں نے اصرار کے با وجود معاوضہ لینے سے انکا رکر دیا آج اُن کی معصوم روحیں آسمانی بلندیوں سے جنت کے مرغزاروں سے کس طرح فخریہ طور پر لا کھوں انسانوں کے اِس سیلاب کو دیکھتی ہوں گی کہ کسی دور میں زمین کا یہ ٹکڑا اُن کی ملکیت تھا انہوں نے اِس زمین کا کو ئی بھی معا وضہ نہ لیا شاید وہ جانتے تھے کہ قدرت انہیں لا زوال شہرت سے ہمکنار کر نے والی ہے ایسی شہرت جس کو کبھی بھی اندیشہ زوال نہ ہو گا ۔میں سوچ رہا تھا کہ آخر اِس شہر میں وہ کیا خو بی اور مقنا طیسی کشش ہے کہ کر ہ ارض کے ہر علا قے سے ہر نسل ہر زبان کے ہزاروں لا کھوں کو دیوانہ وار اپنی طرف کھینچتی ہے صدیاں ما ضی کے تا ریک غار میں گم ہو گئیں شاہی خا نوادے اُجڑ گئے قصر و ایوان ویران ہو گئے عظیم سلطنتیں وقت کے غبار میں دھندلا گئیں امرا کی حویلیاں خا ک اڑانے لگیں دولت مندوں کے بلند و بالا بنگلے بے رونق ہو گئے سلاطین کے درباروں کی شان و شوکت قِصہ پا رینہ بن گئیں جاہ و جلال والے عظیم با دشاہوں کی کچہریاں بھولی بسری داستان بن گئیں مہ رخوں کی محفلیں الٹ گئیں پری و شو کی مجلسیں درہم برہم ہو گئیں۔

Masjid e Nabvi

Masjid e Nabvi

معشوقوں کی شمعیں بجھ گئیں عظیم بادشاہوں کے عظیم محلّات کی آخری نشانیاں تک مٹ گئیں لیکن اس شہر مدینہ کی بہار اور شان دیکھیں کہ چودہ صدیوں سے عشاق پیدل اونٹوں پر گھوڑوں پر اور آجکل کاروں اور جہازوں پر قافلوں کے قافلے سمندر پار کر کے یہاں آکر اپنی صدیوں کی نظروں کو کو چا جاں کا دیدار کر اتے ہیں محبّان مشتاقِ مصطفٰےۖ دنیا بھر کے جزیروں صحرائوں پہاڑوں ریگستانوں نخلستانوں سے دیوانہ وار آتے ہیں نہ طویل مسافت آڑے تی ہے نہ سفر کے مسائل نہ کسی کی غربت یہ آتش ِ شوق ہر گزرنے والے دن کے ساتھ تیز ہو تی گئی اور شعلہ شوق دم بدم بھڑکتا ہی رہا روضہ رسول ۖ پر ہزاروں میل کی مسا فت طے کر کے آنے والے اِسطرح بلکتے ہیں جیسے سالوں کا بچھڑا بچہ ماں کی ممتا بھری آغوش میں آگیا ہو پروانوں کا شمع کے گرد طواف تو ایک استعارہ ہے حقیقی نظارہ تو شب و روز یہاں دیکھا جا سکتا ہے اِس شہر میں یہ کشش کس نے پیدا کی ہے ظاہر سیّد عالم ۖ نے ورنہ آپ ۖ کے آنے سے پہلے کون اِس شہر کو جانتا تھا اور نہ ہی کسی کو اِس با رے میں جاننے کی ضرورت تھی احد پہاڑ صدیوں سے موجود تھامگر بے نام میدان بدر بھی سالوں سے تھا مگر کسی شنا خت کے بغیر اور پھر اِس شہر کی قسمت جا گ اُٹھی جب سرتا ج الانبیاء ۖ نے اِس شہر میں قدم رکھا تو یثرب کو مدینہ منورہ بنا دیا ایسا مقدس مقا م عطا کیا کہ اہل مدینہ لاکھوں با ر بھی جنم لے کر محسن ِ اعظمۖ کا شکریہ اد کریں تو نہیں کر سکتے کہ آمنہ کے لال ۖ نے ایک قریہ بے نام کو بقائے دوام اور شہرت لازوال بخش دی۔

میں اہل مدینہ کی قسمت پر رشک کر رہا تھا کہ جن کو چوبیس گھنٹوں کی حضوری حاصل تھی جب چاہیں آکر گنبد خضرا اور روضہ رسول ۖ کی جا لیوں سے اپنی آنکھوں کو منور اور سانسوں کو معطر کر سکتے ہیں اُن جگہوں پر چل سکتے ہیں سانس لے سکتے ہیں جہاں رسول اقدس ۖ نے سانس لیا آپ ۖ مسکرائے آپ ۖ کی دلنشیں ادائوں نے ہوائوں فضا ئوں کو مشک و عنبر سے زیا دہ خو شبو دار کیا شہر مدینہ کی خاک کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اُس نے بار بار رحمتِ مجسم کے نعلین مبارک کو چھوا اور اسی خاک میں سرور دوجہاں ۖ کے معطر پسینے کے قطرات جذب ہو تے اِسی شہر میں قدسی ملائکہ قطاروں کی شکل میں دن رات حاضر ہو تے ہیں ہر دور میں کر ہ ارض پر مشیتِ الہی کے تحت ایک سے ایک بڑھ کر اللہ کے ولی پیدا ہو ئے جنہوں نے گمراہ انسانیت کو صراپا مستقیم سے روشناس کر ایا ایسے ایسے اہل حق جن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لاکھوں لوگ تر ستے تھے جن کی راہوں میں لا کھوں لو گ اپنی آنکھیں بچھاتے تھے جن کی آبروچشم پر لاکھوں لوگ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر نے کو تیا ر تھے یہ ایسے با کمال بزرگ تھے کہ زمین کے جس حصے میں بھی یہ سورج کی طرح طلوع ہوئے، اُس کو ہدایت اور انسانیت کے نور سے روشن کر دیا۔

Roza Rasool

Roza Rasool

ایسے با رعب اور جلال والے بزرگ کہ بڑے سے بڑا شہنشاہ بھی اُن کے در پر ننگے پائوں حاضر ہو نا اپنی سعادت سمجھتا تھا جو لاکھوں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن تھے جن کی غلامی میں آنا لوگ اپنی سعادت سمجھتے تھے جن کے حکم کی تعمیل کر نا لوگ اپنا ایمان سمجھتے تھے جن کے قدموں میں لوگ اپنی دولت گھر بار اولاد اور جانیں قربان کرنے کو ہر وقت تیار رہتے تھے جو معاشروں اور ملکوں کا حقیقی حُسن تھے جن کو زندگی میں ہی خدا ئے بزرگ برتر نے ایسی لازوال شہرت دے دی تھی کہ بادشاہوں کی با شاہتیں اُن کے ایک اشارے پر ہو تی تھیں اُنہوں نے جسے چاہا حکمرانی دے دی جسے چاہا گمنامی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ زمانہ اُن کے پائوں کے ٹھوکر پر تھا وہ اِس فانی دنیا میں کن فیکون کے مقام پر تھے عزت شہرت اور دولت اُن کے پا ئوں میں آنے کو ترستی تھیں اللہ تعالی نے ایسے بزرگوں کو نہ مٹنے والی شہرت دے دی انہوں نے جو چاہا اللہ تعالی نے اُن کو عطا کیا۔

لیکن شان دیکھیں آمنہ کے لال ۖ کی سر تاج الانبیاء ۖ کی کہ ایسے با رعب پرُ جلال بزرگ بھی ساری زندگی اِس شہر میں آے اور روضہ رسول ۖ پر حاضری کی دعائیں کر تے رہے ۔ بڑے سے بڑا بزرگ بھی جب یہاں آیا تو سر جھکائے آنسوئوں سے شاہِ مدینہ ۖ کے در پر دستک دی بڑے سے بڑا با دشاہ پہلوان سپہ سالار شہرت کے آسمان پر سورج کی طرح جگمگا نے والا انسان بھی یہاں ننگے پا ئوں سوالی بن کر آیا یہاں پر جنید و با یزید جیسے بزرگوں کی بھی شاہِ مدینہ ۖ کے در پر سانسیں رک جا تی تھیں یہاں پر آکر بڑے سے بڑا انسان بھی بچوں کی طرح بلک بلک کرروتا۔ جو شہرت کے آسمان پر تھے وہ یہاں حقیر فقیر بن کر خالی جھولی پھیلائے نظر آئے ایسے لازوال بزرگوں کے سامنے جیسے ہی شاہِ مدینہ ۖ کا نام آیا عقیدت و احترام سے اُن کے سر جھک گئے اور آنکھوں سے احترا م و تشکر کے آنسو چھلک پڑے ایسا لازوال شہر کے کہ یہاں با دشاہ بھی فقیر بن کر آئے مر جع خلا ئق بھی ننگے پا ئوں پھرتے نظر آئے یہاں کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بنایا یہ شہرت خا نہ زمین پر صرف ایک ہی شہر کو حاصل ہے جہاں سید الانبیا ء ۖ آسودہ خاک ہیں اِس خا ک کی عظمت آسمانی رونقوں سے بھی زیادہ ہے بلا شبہ مدینہ شہر محبان و عشاقِ رسول ۖ کی سجدہ گا ہ ہے اور یہاں کی خاک عاشقوں کی آنکھ کا سرمہ ہے ۔

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956