میں نے اس کے شہر میں جا کر دیکھا ہے

میں نے اس کے شہر میں جاکر دیکھا ہے
وہ برسوں کے بعد بھی بالکل ویسا ہے
سر پر اب بھی رات سی کالی زلفیں ہیں
پیشانی پر چودھویں رات کا چندا ہے
ابرو ہیں کہ سونت رکھی ہیں تلواریں
آنکھوں میں اک صحرا ہے اور پیاسا ہے
اب تک گال چناروں جیسے دکھتے ہیں
اب بھی ناک پہ دنیا بھر کا نخرا ہے
ہونٹوں پر پیمانے رقصاں ہیں اب تک
گردن اس کی رشک ساغر و مینا ہے
چلتا ہے تو سانسیں چلنے لگتی ہیں
رک جائے تو وقت ٹھہر سا جاتا ہے
سورج کی کیا بات کرو ہو دیوانو !
وہ تاروں کی لو سے چھپتا پھرتا ہے
میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر دیکھا ہے
نرم ہے لیکن برف کے جیسا ٹھنڈا ہے
آج میں پھر سے فال نکالنے والا ہوں
ہر پرچی پہ نام اسی کا لکھا ہے
سنگ باری برسات بنی ہے پھولوں کی
جانے کس نے پہلا پتھر پھینکا ہے
اس سے کہو ڈھانپ لے اپنے چہرے کو
اس نے اب کے چاند کی جانب تھوکا ہے

میں پھر اس کی باتوں میں آجائوں گا
اس نے پھر مسکان کا تحفہ بھیجا ہے
اس کاغذ سے کاغذ جلنے لگتے ہیں
جس کاغذ پہ نام تمہارا لکھا ہے
اتنی زرخیزی تو اس پر واجب ہے
جس شدت سے ابر زمیں پر برسا ہے

Shabir Hussein Butt

Shabir Hussein Butt

شاعر: شبیر حسین بٹ
(اسسٹنٹ کمشنر شیخوپورہ )