یہ شاید انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ جب کوئی آفتاد (آفت) آتی ہے تو وہ اللہ کو یاد کرتے ہیں وگرنہ آج کل ایسے لوگ بہت ہی کم ملتے ہیں جو ہمہ وقت اللہ کی یاد میں مشغول ہوتے ہوں۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ عام و خاص لوگ، چھوٹے و بڑے لوگ، غرض کے ہر طبقۂ فکر کے لوگوں کو ہمہ وقت یادِ الٰہی میں صَرف کرنا چاہیئے۔ مسجدوں میں نماز کے اوقات کار میں دیکھ لیجئے کے ایک صف بھی پوری طرح پُر نہیں ہوتی، آج کا انسان راہِ حق سے بھٹک چکا ہے۔ ہمارا مورال (Moral)بس اتنا رہ گیا ہے کہ صبح نوکری اور شام سے رات گئے تک ٹی وی دیکھنے میں مگن رہا جائے۔
یہ میزانیہ اسی طرح جاری و ساری ہے کہ رات کو سوئیں صبح نوکری اور شام سے رات گئے تک ٹی وی کے آگے بیٹھ کر ناچ گانے، ڈرامے، فلمیں دیکھیں، بس یہی زندگی کا نصب العین سمجھ لیا گیا ہے ، یا پھر زیادہ ہوا تو سیاست کے دائو پیچ کے بارے میں اپنا اپنا موقف اور اظہارِ رائے دے دیا جائے۔ ایسے لوگ بھی بہت کم ہی ملیں گے جو دوسروں کے لئے کچھ کار ہائے انجام دیتے ہوں وگرنہ آج کل تو صرف لوگ اپنی ذات تک ہی محدود ملتے ہیں۔ دوسروں کی دکھ، تکلیف، آزار اور ظلم سے ان کا دور دور تک کوئی واسطہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ مگر جب کوئی آفت نازل ہو تو فوری طور پر یہی لوگ دوسروں کی خدمت انجام دینے میں محو ہو جاتے ہیں۔
چلیں یہی سہی کم از کم ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ مصیبت کے وقت لوگوں کے کام تو آتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابھی لوگوں میں ایمان زندہ ہے مگر شیطان اپنے شر کو پھیلانے کی بھرپور تگ و دُو میں مصروفِ عمل ہے۔ اور کچھ حد تک اس دور میں وہ کامیاب بھی ہو چکا ہے۔ حالانکہ عام فہم بات ہے کہ انسان جب جب صرف اپنے لئے کام کرتا ہے تو وہ بہت جلد تھکن کا شکار ہو جاتا ہے مگر جب یہی انسان دوسروں کے لئے کوئی کام انجام دینے نکلتا ہے تو وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا پُھلکا محسوس کرتا ہے۔
Bomb Blasts
پچھلے چند روز سے شہرِ قائد بم دھماکوں سے لرز رہا ہے ، ایک ہی شام میں کئی کئی دھماکے ہو رہے ہیں اور اس میں کتنے ہی بے گناہ لوگ داغِ مفارقت دے رہے ہیں، اب یہ ان فیملیوں اور ان کے احباب سے پوچھا جائے بلکہ جا کر دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان کے چمکتے ہوئے روز و شب کس طرح ویران ہو چکے ہیں۔ کسی کے گھر کا واحد کفیل اسے چھوڑ گیا ہے تو کوئی بہن اپنے بھائی سے محروم ہو چکی ہے، کوئی بیوی اپنے شوہر سے جدا ہو گئی اور کوئی ماں اپنے لختِ جگر کے لاشے دیکھ کر اپنا سُن گن (یادداشت) بھول بیٹھی ہے۔ یہ ہے شہرِ قائد کا احوال ، گذشتہ کل بھی تین دھماکوں سے شہرِ قائد لرز گیا جب بند الیکشن آفس کے باہر یہ دھماکہ ہوا اس کے کچھ ہی دیر بعد دوسرا دھماکہ جو نسبتاً کم آواز کا تھا کوئی سو قدم کے فاصلے پر کیا گیا۔
پھر کچھ دیر بعد لیاری میں بھی اسی طرح کا دھماکہ ہوا۔ اس سے ایک دن پہلے مومن آباد میں بھی دھماکہ ہوا ۔جس سے کئی انسانی جانوں بشمول ایک کمشن بچی کے اپنے احباب کو داغِ مفارقت دے گئے۔کیا ان لوگوں کا کوئی قصور تھا، کیا ان لوگوں نے کسی کا کچھ بگاڑا تھا۔ یہ سوال ہے ہمارے نگراں حکومت سے جو آج ہر ذی شعور فرد کر رہا ہے، لوگ یہ بھی کہتے ہوئے پائے گئے کہ آخر یہ نگران کس چیز کی نگرانی میں مصروف ہیں کہ ان سے امن و امان ہی بحال نہیں ہو رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نگران کلی طور پر ناکام ہو چکی ہے ،دوسرے شہروں کی طرح یہاں الیکشن کی آزادی اور گہما گہمی بھی نظر نہیں آ رہی ہے، ایسے میں یہ دعویٰ کہ الیکشن صاف اور شفاف ہوگا ، خود ان کے دعوے ٰ کی نفی کر رہا ہے۔
انہیں چاہیئے کہ کوئی فول پروف انتظامات کریں تاکہ یہ شہر اور اس شہر کے باسی ان افتاد سے محفوظ ہوں۔ اور اگر یہ لوگ شفاف انتخابات کی راہ میں رکاوٹ ہیں تو فوری انہیں اپنے منصب سے استفیٰ دے دینا چاہیئے۔ افتخار عارف صاحب کے قطعہ سے ایک شعر یہاں رقم کرنا چاہوں گا کیونکہ آج کے موضوع کو یہ شعر بہت قریب کرتی ہیں۔ قیامتیں گزر رہی ہیں کوئی شہسوار بھیج وہ شہسوار جو لہو میں روشنی اُتار دے ہمارے ملک کی کئی جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے آج دن تک کراچی میں کھیلے گئے اس خون کی ہولی پر کوئی مذمتی بیان تک نہیں دیا۔
Election
حالانکہ یہ نوٹس کا لیا جانا اور مذمتی بیان داغ دینا اتنی پرانی ہو گئی ہیں کہ لوگ اب ایسے بیان پر ہنستے ہیں، مگر چونکہ الیکشن کی گہما گہمی جاری ہے اور ایک صوبے میں یہ سرگرمیاں تیز ترین رفتار کے ساتھ جاری ہیں وہ تین صوبے ان سرگرمیوں سے کوسوں دور ہیں ایسے میں سوالیہ نشان تو اٹھتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے۔ اگر ملک کو ڈی ایسٹبلائزڈ کرنا مقصود ہوتا تو پورے ملک میں اس طرح کی کاروائیاں ہوتیں مگر ایسا نہیں ہے یہ تو تین صوبوں کو ڈی ایسٹبلائزڈ کرنے کے دَر پہ ہیں، ہم یہ تو نہیں کہتے کہ دشمنانِ وطن ایسا کیوں چاہتے ہیں ہاں! مگر اتنا ضرور چاہتے ہیں کہ جہاں جہاں آزادی سے الیکشن مہم جاری و ساری ہے۔
اُن جماعتوں کے لوگ بھی دوسرے صوبوں میں ہیں، بلکہ جب آپ کہتے ہیں کہ عوام ہماری ہے تو یہاں بھی عوام ہی بستے ہیں اس لئے ضروری امر ہے کہ کچھ نہیں تو کم از کم اظہارِ یکجہتی کا بیان تو ضرور دیا جانا چاہیئے۔آج شہرِ قائد لہو لہو ہے۔ مگر سوائے ان تنظیموں کے جو خود اس عتاب میں ہیں اپنے اور اپنے عوام کے حق میں بیانات دے رہے ہیں اور جو خود کو قومی جماعتیں کہتی ہیں انہیں ایک بیان بھی دینا گوارا نہیں ہو رہا۔جبھی تو کہا جاتا ہے کہ آج کے اس پُر فریب ماحول میں جہاں ساری انسانی تگ و دو کا محور صرف انسان کی اپنی ذات ہو کر رہ گئی ہے، جہاں ہر شئے خریدی اور بیچی جا رہی ہے صبح و شام ایک شور و ہنگامہ اور قیامت خیز نفسا نفسی کا عالم ہے جہاں انسان کو ایک دوسرے کی مطلق فکر نہیں ہے۔
کسی کو دوسرے کی غمگساری کے لیے وقت نہیں ہے۔ جہاں ہر ایک دوسرے سے متنفر اور بیزار ہیں، معمولی معمولی نام و عنوان سے باہم ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں، حالانکہ دین اسلام کی تعلیم کی اساس و بنیاد ہی باہمی اخوت، آپسی ہمدردی اور مثالی محبت پر ہے اس لئے ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ایک جان دو قالب ہوتے، ملک کے کسی گوشے میں کچھ ہو جائے تو اس کا درد دوسروں کو ضرور ہوتا دکھائی دینا چاہیئے اسی کا نام اخوتِ اسلامی ہے اورملک کو آج اسی کی ضرورت ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پھر سے ایک بار تمام نفرتوں اور عداوتوں کو بھلا کر الفت و محبت کی شمع روشن کریں کیونکہ آج شہرِ قائد کو اس کی اشد ضرورت ہے۔
Firing
آج احوال یہ ہے کہ پتہ نہیں کب کہاں کیا ہوجائے، کہاں فائرنگ ہو جائے، کہاں دھماکہ ہو جائے ، گھر سے نکلے ہوئے لوگ واپس گھروں کو آئیں گے یا نہیں ان کے گھر والے یہی سوچتے سوچتے صبح سے شام کر دیتے ہیں۔ خدا خیر کرے!یہاں حیرت اس بات پر ضرور ہے کہ نگرانوں نے ان تمام واقعات پر خاموشی سادھ رکھی ہے ، آپ کہہ سکتے ہیں کہ کیوں؟ مگر اس کا جواب تو نگرانوں کے پاس بھی نہیں ہے ، گویا وہ صرف اپنا مقررہ وقت پورا کرنے میں لگے ہیں اور اس دوران بہترین آفسوں اور خود سیکوریٹی کے مزے لے رہے ہیں ۔ اس پر بھی اکثر لوگ یہی بحث و مباحث کرتے پائے جاتے ہیں کہ آیا الیکشن ہونگے یا نہیں کیونکہ حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ الیکشن ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا، اور کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہوئے نظر آئے کہ ” بد ترین جمہوریت سے بہترین آمریت بہتر ہے”۔
خیر یہ تو لوگوں کی اپنی سوچ ہے۔ لیکن کیا بہترین جمہوریت کیلئے بہترین کاوشیں ضروری نہیں ہیں۔ شہر محفوظ نہیں ہے، شہر کے لوگ محفوظ نہیں ہیں، تو آخر یہ اتنی بڑی سیکوریٹی کی فوج کس مقصد پر لگی ہوئی ہے۔ جب کچھ ہو جاتا ہے تو جناب سب پہنچ جاتے ہیں اور تجزیہ شروع کر دیا جاتا ہے کہ دھماکہ کتنے کلو وزنی تھا، کس نے کیا، کیوں کیا ، وغیرہ وغیرہ، کیا یہ سب کچھ ہونے سے پہلے یہ سیکوریٹی والے اپنا لائحہ عمل ترتیب نہیں دے سکتے کہ جس سے عوام کا خون ِ ناحق نہ بہے۔
پھر کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ واقعات کے بعدسخت چیکنگ کے نام پر بے گناہوں کو پکڑ لیا جاتا ہے اور انہیں جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے اور جب یہ افراد عدم ثبوتوں کے فقدان میں برسوں جیل میں رہ کر باہر آتے ہیں تو ان کی اور ان کے کنبے کی زندگی برباد ہو چکی ہوتی ہے اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا اور المیہ یہ ہے کہ ان کی زندگی برباد کرنے والوں کو سزا دینے کی بات کون کہے، ان سے باز پرس تک نہیں کی جاتی۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنی پالیسی میں کس حد تک شفافیت لاکر ایسے متعصبانہ رویے سے نمٹتی ہے۔ اور کب نمٹتی ہے۔ تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی