تحریر : تحریر: عتیق الرحمن آج عالم اسلام کی جو صورت حال ہے، وہ بے انتہا ناگفتہ بہ ہے، انیسویں صدی میں جو زوال مسلمانوں پر ان کے حکمرانوں کی وجہ سے مسلط ہوا ہے، وہ بڑھتا اور گہرا ہوتا جا رہا ہے، امت مسلمہ کے سیاسی ، عسکری اور تمدنی زوال میں سب سے بڑا کردار سعودی حکومت کا ہے، جن کی سیاست دوغلی ہے، اور جنہوں نے حرمین کو اپنی سواری بنا رکھا ہے، تمام مسلمانوں کو یہ بات بتا دینا چاہئے کہ جزیرة العرب اسلام اور ملت اسلامیہ کا حرم ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے بڑی تاکید کے ساتھ یہ وصیت فرمائی تھی کہ جزیرة العرب سے مشرکین اور یہود و نصاری کو نکال دینا۔ حضرت عمر فاروق نے وصیت نبوی پر عمل کرکے جزیرة العرب کی تطہیر فرمادی تھی۔ پھر ١٣سو سال کے عرصہ میں کسی حکومت کی یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ جزیرة العرب میں دوبارہ ان کو بسائے۔ پوری تاریخ میں پہلی مرتبہ جس حکومت نے خفیہ قراردادوں کے ذریعہ جزیرة العرب کو برطانیہ اور امریکا کے حوالہ کیا۔ ان سے اپنے تحفظ کے خفیہ معاہدے کئے۔ اور ان کے فوجی اڈے قائم کئے ، جہاں صلیبی اور صہیونی کمانڈرزاور انٹلی جنس کے ذمہ داروں کا جال بچھا ہوا ہے ، جن پر جزیرة العرب کی دولت کا بڑا حصہ بھینٹ چڑھایاجارہا ہے وہ آل سعود کی حکومت ہے، اور آل سعود نے ملت اسلامیہ کے اس حرم کو اور ملت اسلامیہ کے ذخائر کو ناجائز طریقے پر امیروں اور شہزادوں کی عیاشیوں پر اس طرح استعمال کیا ہے، جسکا علم ہم سب سے زیادہ امریکا ، برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں اور عوام کو ہے۔
کسی بھی ملک کے صدر ، وزیر اعظم اور سربراہ کی ایک تنخواہ ہوتی ہے ، انہیں ملک کی دولت اپنے من سے استعمال کی اجازت نہیں ہوتی ہے ، اور اسلام تو اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا ہے ۔ اسلام نے تو یہ سبق پڑھایا ہے کہ مسجد میں خطبہ دیتے ہوئے حضرت عمر سے ایک عام آدمی ان کے لباس کے بارے میں پوچھ لیتا تھا، اسلام کے اس نظام کو زندہ رکھنا ضروری ہے، آج سعودی عرب اور اس کے عملًا حاکم محمد بن سلمان نے اور ان کے باپ شاہ سلمان نے ساری حدیں پار کر لی ہیں ۔ ان کے اخراجات کی داستان الف لیلہ اور دور جاہلیت کے ایران اور روم کی شہنشاہوں کو مات دے رہی ہے، اس پران کی غیر شرعی کارروائیوں پر پوری امت اسلامیہ کو سوال کرنا چاہئے ، ان سے ان کے اخراجات اور ڈکٹیٹرانہ فیصلوں کے بارے میں پوچھنا چاہئے۔ دنیا کے مختلف ملکوںکے سفروں اور بالخصوص مراکش اور روس کے سفروں کی فضول خرچیاں دنیا کے مشہور اخبارات کی سرخیاں بن چکی ہیں۔
اور اب تو جزیرة العرب کو اسلام سے کاٹنے اور صہیونیت اور صلیبیت کی گود میں ڈالنے کی جو شرمناک کارروائی چل رہی ہے ، وہ کوئی راز نہیں ہے ، دنیا کے بدترین اور بے شرم حاکم ڈونالڈٹرمپ کو ریاض بلا کر جس طرح مسلمانوں کو ذلیل کیا گیا، اور مسلمانوں کے اثاثہ کو جس طرح اس صہیونی کے قدموں میں ڈالا گیا۔مسجد اقصی میں داخلہ پر اسرائیلی حکومت کی طرف سے روک لگانے پر جو مجرمانہ رویہ اختیار کیا گیا، حماس کو جس طرح دہشت گرد قرار دیا گیا، اسرائیل کے خفیہ سفر کئے گئے، اور شہر القدس کو اسرائیلی دارالسلطنت قرار دینے اور فلسطینیوں کو فلسطین سے بے دخل کر کے دوسرے کسی ملک یا جزیرہ نما سینا میں آباد کرنے کی جو خفیہ پلاننگ کی گئی، فلسطینی صدر محمود عباس کو جس طرح بلا کر دھمکی دی گئی، باضمیر علماء کو جس طرح گرفتار کیا گیا ، کرپشن کے مقابلہ کا ڈھونگ رچایا گیا، لبنان کے وزیر اعظم کے ساتھ جو بھونڈا کھیل کھیلا گیا، اور امیروں کی دولت کا ایک حصہ لے کر جس طرح کرپشن کی بندر بانٹ کی گئی ، اور آخرمیں صلیبیت کا کھلم کھلا اعلان اس قوت کے ساتھ کر دیا گیاکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی جھوٹی تصویر کی ایک پینٹنگ ٤٥٠ ملین ڈالر میں خریدی گئی۔ نبی کی تصویر توحرام ہی ہے ، حضرت عیسی کی جھوٹی اور گستاخانہ تصویر خرید کر اٹلی کے ایک صلیبی مصور کو پورے ایک ملک کا بجٹ دیا گیا، جبکہ یمن کے بچوں ، بوڑھوںاور عورتوں پر بمباری کی جارہی ہے، ان کو قحط سے مارا جا رہاہے،اور ٦٥ ملکوں کے ساتھ مل کر تین سال تک شام و عراق کے لاکھوں عوام کو بھوکا ننگا کیا گیا، یا موت کے خوفناک ملبوںمیں دفن کر دیا گیا۔
فلسطین کی تاریخ خون مسلم سے لالہ زار ہے، لیکن صہیونیوں کے خفیہ دوستوں نے کبھی ان کی مدد نہیں کی،کبھی ملعون یہودیوں سے کوئی لڑائی نہیں لڑی، بلکہ ان کے خلاف قرآن کی آیات پر مدارس کے کورسز میں پابندی لگا دی ، یہاں تک کہ اب تاریخ فلسطین کا سب سے سنگین واقعہ پیش آیا کہ مسجد اقصی کے شہر القدس کو ان کے پیر و مرشد ٹرمپ نے جب اسرائیل کا دار السلطنت قرار دیا، تو جھوٹے منھ، مسلمانوں کو جھانسہ دینے کے لئے، فیصلہ پر ناراضگی کا اظیار کر دیا، لیکن حرمین شریفین میں اس واقعہ کے دو تین دن بعد جمعہ کے خطبہ میں اماموں کو اس پر بولنے تک نہیں دیا گیا۔
مسلمانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ حرمین کے منبر اب اسلام اور ملت اسلامیہ کے لئے نہیں ہیں، بلکہ سعودی حکومت کی منحوس سیاست کی تائید کیلئے رہ گئے ہیں، غیرت مند علماء کی زبانوں پر تالہ بندی ہے، اور بے غیرت حکام پرست علماء کیلئے نوازشیں۔ایسے حالات میں پوری امت پر فرض ہوجاتا ہے کہ ان سازشوں اور اوچھی حرکتوں کا پردہ فاش کریں، اور مطالبہ کریں کہ سر زمین حجاز کو اور حرمین شریفین کے نظام کو ملت اسلامیہ کے اجتماعی نظام کے حوالہ کیا جائے، ترکی، پاکستان ، ملیشیا اور انڈونیشیا کی مشترک تنظیم کے حوالہ کیا جائے، اس ڈھونگ اور مکر و فریب کے پروپگنڈہ سے متاثر نہیں ہونا چاہئے کہ ایران سے خطرہ ہے، شیعہ حرمین پر قابض ہوجائیں گے، یہ سفید جھوٹ ہے، انھوں نے شام، لبنان، عراق اور یمن شیعوں کے حوالہ کیا ہے، پہلے بھی کیا ہے ، آج بھی کر رہے ہیں، کچھ بے وقوف اور ان کے ایجنٹ مولوی اس کا شور مچاتے ہیں، در حقیقت وہ مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں، اس وقت پوری امت مسلمہ ترکی کے ساتھ ہے، ترکوں میں حرمین شریفین کا سب سے زیادہ احترام ہے، ملت کی طرف سے مطالبہ ہونا چاہئے کہ دوبارہ انتظام حرمین ترکی کے حوالہ کیا جائے۔ اور صہیونیوں و صلیبیوں سے معاہدہ کرنے والے آل سعود کو برخواست کیا جائے۔
یہ حقائق پیش کئے جا رہے ہیں ، ہمیں دیکھنا ہے کہ کتنے مسلمان اس سے متفق ہیں، اور اس پر لبیک کہتے ہیں، یہ ایک عالمی ریفرنڈم ہے، ایک عالمی حساس موضوع ہے، اس پر آپ کی جرأتمندانہ رایوں کا انتظار ہے۔