تحریر : خدیجہ کشمیری سب کو اپنا شہر یا علاقہ اچھا لگتا ہے۔ لیکن میرا گھر میرا کشمیر جل رہاہے۔ میرے شہر کے کتنے گھروں کے چراغ بجھ چکے ہیں۔ کتنی ہی آنکھیں اپنی بینائی کھو بیٹھی ہیں۔ عید کا دن ہم سب بہت سالوں بعد سرینگر میں عید اکھٹے منانے میں مگن یہ تک بھول گئے تھے ہم کشمیری عوام سرکار سے کچھ مانگ رہے ہیں۔ ہماری کچھ امیدیں وابسطہ ہیں۔ لیکن بدلے میں محبوبہ مفتی سرکار نے نا امیدی کے نہ روکنے والے سلسلہ کا آغاز کردیا۔
برہان وانی کو شہید کرکے سرکاری اعلان غلطی سے انکوئٹر ہوگیا۔ جولائی کے بعد بچوں نے اسکول کا دروازہ تک نہیں دیکھا ۔ پھر کشمیر کے پڑھے لکھے نوجوانوں نے مل کر محلے کے بچوں کو بلا معاوضہ پڑھانے کا بیڑا اٹھانا چاہا۔ مگروہ ننھے دماغ تعلیم کیا حاصل کریں گے جن کے دل و دماغ پرپلیٹ گنوں، شعلوں اور بھارتی فوج کی درندگی کے اثرات ہوں۔
تعلیم کہاں سے حاصل کریں، میرے شہر کے بچوں میں نفسیاتی دباو ¿ حد سے زیادہ ہے۔ کسی سے کچھ نہیں کہنا مجھے۔ پاکستانی حکمران کیا کچھ کرسکتے ہیں خدارا کچھ حتمی فیصلہ کریں۔ میرا شہر بہت جل گیا۔ لاشیں اٹھانے کے لیے اب کندھے بھی تھک چکے ہیں۔
Human Rights
حقوق انسانی کے دعوے داروں کو پانی میں ڈوبتا پرندہ، تار پر لٹکا کوا تو نظر آجاتا ہے اور کئی گھنٹوں کے انتھک آپریشن کے بعد اسے بچانے لیا جاتا ہے تو کیا یہاں کچھ نظر نہیں آتا۔ اپنی دوغلی پالیسیوں کے بجائے ہماری ننھی ننھی جانوں کا ہی خیال کرلیں۔ ہم میں ابھی جان ہے اس جان کو بچانے کا ہی احساس کرلیں۔