اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ رہنما جہانگیر خان ترین نے قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کی تفصیلات آشکار ہونے کے معاملے کو انہتائی سنگین قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے فوج اور سول حکومت کے درمیان بد اعتمادی کی گہری خلیج پیدا ہو گئی ہے۔
جہانگیر خان ترین نے کہا کہ اس واقعے کے بعد ان سوالات نے جنم لینا شروع کر دیا ہے کہ کیا بند کمرے کے خفیہ اجلاسوں میں اعلیٰ سول اور فوجی حکم کھل کر بات کرنا بند کر دیں۔
جہانگیر ترین نے کہا کہ بند کمرے میں ہونے والے ایک اجلاس کی تفصیلات کے سامنے آنے کی ذمہ داری کسی صحافی پر ڈالنا انصاف نہیں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ معاملے کی سنگینی کی وجہ سے اس کی مفصل تحقیقات ہونا ضروری ہے۔
اس ضمن میں انھوں نے حال ہی میں کشمیر جیسے حساس اور سنجیدہ معاملے پر حکومت کی طرف سے بلائے گئے آل پارٹیز کے اجلاس کی طرف بھی اشارہ کیا جس میں تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی کی تقریر کے ’ٹکر’ مبینہ طور پر حکومتی میڈیا سیل نے الیکٹرانک میڈیا کو جاری کر دیے تھے۔
انھوں نے کہا کہ اس نوعیت کے بند کمرے کے اجلاسوں میں شرکا اس اعتماد پر کھل کر بات کرتے ہیں کہ ان کی بات بند کمرے سے باہر نہیں نکلے گی۔ لیکن اگر یہ اعتماد ختم ہو جائے تو نہ صرف کوئی بات نہیں کرے گا بلکہ اس طرح کے اجلاس بے معنی ہو کر رہ جائیں گے۔
30 اکتوبر کو اسلام آباد میں پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے احتجاج کی کال کے حوالے سے جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پاناما پیپرز کے معاملے پر ہر متعلقہ ادارے سے مایوس ہو کر سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی کی طرح اس بار بھی تحریکِ انصاف کا احتجاج پر امن ہوگا۔ جہانگیر ترین نے لندن پلان کی باتوں کو رد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک نجی دورے پر لندن آئے تھے اور اس کا کوئی سیاسی ایجنڈہ نہیں تھا۔
علامہ طاہر القادری سے رابطوں کے بارے میں انھوں نے کہا کہ پارٹی نے اس طرح کا کوئی فیصلہ نہیں کیا اور رائے ونڈ میں تاریخی اجتماع کرنے کے بعد وہ اسلام آباد میں بھی احتجاج کی نئی تاریخ رقم کرنے کے بارے میں پرعزم ہے۔