ہر شہری کے بنیادی حقوق یکساں ہیں ؟

 Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر

سرحدوں پر کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے دشمن ہماری دھرتی پر مسلسل دراندازیوں کی ناپاک جسارتیں کئے چلا جا رہا ہے بلا شبہ پاک وطن کی افواج اسے ہر لمحہ دندان شکن جواب دے رہی ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ سابقہ حکمران جماعت اپنے اس لیڈر کی بیماری پر سیاست کو چمکانے میں مصروف عمل دکھائی دے رہی ہے جو ملزم نہیں بلکہ سزا یافتہ مجرم ہے ۔کبھی کسی چینل پہ بیٹھی محترمہ عظمٰی بخاری اپنے لیڈر کی بیماری کا واویلا کرتی نظر آتی ہیں تو کبھی مائزہ حمید کسی چینل پہ نواز شریف کی بیماری کو پاکستان میں لا علاج منوانے کے لئے دلائل دے رہی ہوتی ہیں سو میرے دل میں آئی کہ اگر ایک سزا یافتہ قیدی کے عارضہء قلب کے علاج کے لئے اسقدر شور برپا کیا جا رہا ہے جو کرپشن اور بدعنوانیوں کے جرم میں سزا بھگت رہا ہے تو آیئے دیکھتے ہیں کہ پاکستان بھر کی جیلوں میں قید کتنے قیدی ہیں جو اسی بیماری کے باعث قریب المرگ ہوتے جا رہے ہیں۔

قارئین کرام ؛پاکستان بھر کی 99 جیلوں میں اس وقت لگ بھگ ساڑھے 80ہزار قیدی موجود ہیں جن میں سے چار ہزار سے زائد ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہیں اور 3500سے زائد دل کے مریض قید ہیں اور یہ وہ مریض ہیں جن کی بیماری آخری منازل کو عبور کر رہی ہے جن کو جیل کے اسپتالوں میں صرف اینجی سڈ دے کر بہلاوہ دیا جا رہا ہے کیا وہ تمام قیدی پاکستانی نہیں ہیں ؟کیا ان کو یہ بھی حق نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے کسی بڑے اسپتال میں علاج کی سہولیات سے فیضیاب ہو سکیں ؟ان قیدیوں کے کھاتے میں کوئی پانامہ لیکس نہیں ہے نہ ہی ان کا نام ڈان لیکس کی زینت بنا ہوا ہے اور نہ ہی انکا کوئی ریکارڈ شدہ بیان عالمی عدالت میں پاکستان کے خلاف بطور ثبوت پیش کیا گیا ہے اتنے سنگین جرائم بھی ان سے سر زد نہیں ہوئے ہیں تو کیا خیال ہے وہ کسی اچھے اسپتال میں علاج کے مستحق ہیں یا نہیں ؟ان میں سے کتنے قیدی مریض ایسے ہیں جن کو جیل میں کارڈیک ایمبولنس فراہم کی گئی ہے ؟کیا آئین پاکستان کے مطابق سب پاکستانیوں کے حقوق یکساں ہیں یا نہیں اگر جواب اثبات میں ہے تو دل کے مریض ہر قیدی کو وہی سہولیات فراہم کی جائیں جو نواز شریف کو ابھی تک فراہم کی گئی ہیں جن کے باوجود (ن) لیگی ایک لامتناہی شور کر رہے ہیں اور اگر خدانخواستہ نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لئے بھیجا جاتا ہے تو تمام ایسے قیدی جو دل کے عارضہ میں مبتلا ہیں انکو بھی بیرون ملک علاج کی سہولت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہو گی۔

آپ ذرا تاریخ کے اوراق تو پلٹ کر دیکھیں کہ اب تک کتنے قیدیوں کی اموات جیل ہی میں ہارٹ اٹیک سے وقوع پذیر ہو چکی ہیں جو قیدی جیل میں ہی اس مرض کے ہاتھوں لقمہ اجل بن گئے ان کا قتل کس پر ڈالا جائے نواز شریف ،شہباز شریف ،آصف علی زرداری،پرویز مشرف ،پرویزالٰہی،سائیں سرکار یا کسی اور پر اب تک ان اسیروں کے لئے کسی نے آواز بلند کیوں نہیں کی ؟صرف اس لئے کہ عام پاکستانی صرف زمین پر رینگنے والے کیڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے یا پاکستان میں رہتے ہوئے انہیں کوئی حقوق حاصل ہی نہیں ؟میری ن لیگیوں سے ایک گزارش ہے ذرا ٹھنڈے دماغ سے پاکستانی بن کر سوچئے گا کہ آپ کی پارٹی کے دور اقتدار میں اسپتالوں کی حالت زار کیا تھی ؟کیا مریض اسپتالوں میں ادویات کے فقدان کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہیں مرتے رہے اور آپ کے شہنشاہء معزم اپنا معمول کا چیک اپ کبھی کروانے کے لئے ان اسپتالوں میں قدم رنجہ فرمائی کو گئے تھے نہیں نہ وہ تو انگلینڈ سے جا کر اپنا معمول کا چیک اپ کرواتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان مقامی اسپتالوں میں انہوں نے کچھ دیا ہی نہیں تو علاج یا چیک اپ کیوں کرواتے ہماری بہو بیٹیاں اسپتالوں کے ننگے فرش پر یا رکشوں میں بچوں کو جنم دیتی رہیں اور یہ لوگ پہلی چھینک آنے پر ہی لندن کو عازم سفر ہو جاتے تھے اور دوسری چھینک جا کر لندن میں مارتے تھے اور جس پیسے سے یہ اپنا چیک اپ یا علاج کرواتے تھے وہ تمام پیسہ اپنی ماں دھرتی پر ایڑیاں رگڑ کر مرنے والوں کا ہوتا تھا۔

کبھی خورشید شاہ فرما رہے ہوتے ہیں کہ اگر نواز شریف کو کچھ ہوا تو اسکے قاتل عمران خان ہونگے تو جناب شاہ صاحب آپ تو عوام کی نمائیندہ جماعت پیپلز پارٹی کے راہنما ہیں ذرا آپ ہی فرمایئے کہ جو قیدی اسی عارضہ کی وجہ سے جیلوں میں مرے ہیں ان کا قتل کس کی گردن پر ہوگا ؟کیا وہ پاکستانی نہیں یا وہ انسان نہیں آپ کی نظر میں ؟کاش ان لوگوں نے بھی پاکستان کے قومی خزانے پر ہاتھ صاف کئے ہوتے ،یا انکے بھی بیرون ملک اثاثہ جات اور کاروبار ہوتے ،کاش انکی اولادوں کی بھی شہریت کسی اور ملک میں بھی ہوتی ،کاش انہوں نے بھی ڈان لیکس میں کوئی کردار ادا کیا ہوا ہوتا ،کاش انکا بیان بھی کسی عالمی عدالت میں بطورثبوت پاکستان کے خلاف پیش کیا گیا ہوتا ،تب تو وہ حقدار ہوتے بہترین علاج کی سہولتوں کے ،تب تو انکے علاج کے لئے شور مچتا پاکستان بھر میں ،وہ تو تھے بیچارے حشرات الارض پاکستانی شہری تھوڑی تھے وہ کیوں شاہ جی ٹھیک کہا ہے نہ میں نے ؟دوسری طرف آپ ہی کی پارٹی کے محترم اعتزاز احسن صاحب فرماتے ہیں کہ نواز شریف ملزم نہیں بلکہ سزا یافتہ مجرم ہے اسے ریلیف دینے کا اختیار عمران خان کے پاس نہیں بلکہ اگر اسے چھوٹ ملے گی بھی تو عدالت سے اور پاکستان کی سب سے بڑی عدالت اسے سزا سنا چکی ہے۔

اب کیا کہیں گے آپ محترم خورشید شاہ جی ۔مجھے حیرانی سب سے زیادہ اس وقت ہوئی جب میری دھرتی کے ایک سینئر قلم کار نے اپنے ایک کالم میں یہاں تک کہہ دیا کہ آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت عمران خان صدر پاکستان سے کہہ کر نواز شریف کی سزا ختم کر سکتے ہیں یا سزا معطل کر کے انہیں بیرون ملک علاج کی اجازت دے سکتے ہیں اور عمران خان کو چاہیئے کہ کھلے دل کے ساتھ یہ کام کر ڈالیں تا کہ ملک ایک بڑے بحران سے محفوظ رہے ۔ واہ جناب آپکی قلم کاری کے قربان جائوں سبحان اللہ بہت خوب جناب ۔میں حلفیہ کہہ سکتا ہوں کہ میں عمران خان یا تحریک انصاف کا وظیفہ خوار نہیں ہوں جو انکے قصیدے لکھوں لیکن بحیثیت پاکستانی اپنے فرض سے سبکدوش لازمی ہونا چاہتا ہوں اس کے لئے تو سارے میدان عمل میں آگئے جس کے بیان کو بنیاد بنا کر بھارت جیسا ازلی دشمن اپنے سفاک ترین جاسوس کی رہائی چاہے ،اسکے علاج کی فکر سب کی نیندیں اڑائے ہوئے ہے جس پر اربوں کی کرپشن کی وجہ سے کیسوں میں سزا ہوچکی ہے ،اور کسی بیمار قیدی یا عام پاکستانی کے علاج کی فکر کبھی ان لوگوں کو آج تک کیوں نہیں ہوئی؟ماں دھرتی کی آغوش کے پالے پاکستانیوں سے میں یہ پوچھتا ہوں کہ آپ کی نظر میں کیا سب شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں ؟ اگر ہیں تو پھر یہ تفاوت آخر کیوں ؟

M.H BABAR

M.H BABAR

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile:03344954919
Mail:mhbabar4@gmail.com