میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے
اللہ اللہ کر کے پاکستان نے گزشتہ چار سال میں کوئی خدو خال واضح کئے تھے ٬ متعدد غیر ملکی دورے چائنہ کے بے شمار اجلاس ہمیں دوبارہ زندگی کی نوید دے رہے تھے٬ پاکستان کا نام اسٹاک ایکسچینج میں بہتری کے حوالے سے بین القوامی بہتر معیشت کے حامل ممالک کی صف میں آگیا٬ کئی بڑے فورمز پر پاکستان کی شرکت ہر پاکستانی کو زندگی کا احساس دلا رہی تھی۔
خستہ حال برباد ملک کی شاہراہیں کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی سڑکوں سے کسی طور کم نہ تھیں٬ یہ سڑکیں نہیں کامیابی کی کنجی ہیں٬ یورپ میں رہتے ہوئے ان کی ترقی میں کلیدی کردار ان کی سڑکوں کے بچھے ہوئے جال نے ادا کیا ٬ پورا یورپ یوں مربوط کر دیا گیا ہے کہ کیا کہنے٬ایک ملک سے دوسرے ملک کے ساتھ تجارت آسان ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں عام انسان بہترین زندگی گزارتا ہے٬ جبکہ یہی جال جب پاکستان بچھنے لگے تو کوتاہ عقل لوگ نجانے کیسے بے پر کی اڑانے لگے٬ صرف یہی سوچ ابھری کہ اس قوم نے کبھی کسی حال میں خوش نہیں ہونا اور اللہ کا شکر ادا نہیں کرنا ٬ نا شکری اللہ کو ناپسند ہے اور وہ اپنی نعمتوں کو زوال میں بدل دیتا ہے۔
میٹرو کے داخلی راستے دیکھ کر یورپ کا گمان ہوتا ہے عام انسان کیلیۓ کس قدر آسانی ہو گئی اس کا احساس کار جہاز رکھنے والے کہاں کر سکتے ہیں٬پاکستان کے کسی بھی شہر کو دیکھوں پہلے سے بہتری دکھائی دیتی ہے٬ یہ سب عام پاکستانی کو خوش کر رہا تھا ٬ اور یہ بات بڑوں کو منظور نہیں تھی۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی جانبدارانہ انداز میں منتخب وزیر اعظم کو ذاتی گرج جو ابتدائی رپورٹ کے ابتدائی جملے ہی ثابت کرتے ہیں ٬ اس بنا پر دو مختلف انداز میں دو مختلف فیصلوں کے تحت وزیر اعظم کو ہٹا دیا گیا۔
کیا ہٹانے والے اسی ملک کے شہری تھے؟ پاکستان کتنی دہائیوں بعد اپنے پیر مضبوط کر رہا تھا ؟ یہ بات وہ نہیں جانتے تھے؟پاکستان کے اندر باہر کیا کشیدگی ہے بطور پاکستانی اس کو نگاہ میں رکھ کر فیصلہ کرنا ان کی ذمہ داری نہیں تھی؟ایسے میں ایک منتخب مضبوط حکومت کو ہٹا کر ان کے لاکھوں ووٹرز کو غیض و غضب میں مبتلا کرنا کیا انصاف کا تقاضہ تھا؟چلتا ہوا کامیاب نظام یکدم گرا دیا جانا کیا مناسب تھا؟عدالتی کیسسز کو تاخیر میں ڈالا جانا اگر بہت سے نقائص سے بچاتا تھا تو کیا ایسا کرنا بہتر نہیں تھا۔
اس فیصلے کا نقصان نہ کسی منصف کو ہوا نہ کسی بھرے نوٹوں والے سیاستدان کو٬ اس کو بھگتا اس ملک کی غریب عوام نے ان کو پھر سے یتیم کر دیا گیا٬سہانے مستقبل کو سوچنے والے ایک بار پھر بغیر چھتری کے تپتی دھوپ میں آبلہ پا کھڑے حسرت و یاس کی تصویر بنے کھڑے ہیں٬کچھ لوگوں کے شور سے متاثر ہو کر اگر ایسے بھیانک فیصلے دیے گئے تو اس ملک کے لاچار بیس کروڑ کا اللہ ہی حافظ ہے۔
گزشتہ 4 سال سے سیاست کس نہج پر جا رہی ہے محض چند بے لگام لوگوں کی چیخ و پُکار پر ؟اب وزیر اعظم کو گھر بھیج کر ملک پر سیاسی نحوست طاری کر دی گئی ہے٬کئی سرکردہ رہنما ملک میں ہوتے ہوئے پس منظر چلے گئے مگر اب ان کی خاموشی بے فائدہ ہے وطن کی فضاؤں میں جیسے بدلے کی آگ کی بُو رچ بس گئی ہو٬ اس کی ساکت فضائیں جیسے کسی بڑے طوفان کی پیشین گوئی کر رہی ہیں ریاستی ادارے بالکل ساکت جامد سے ہو گئے۔
4=2*2 اس کا جواب 3 ہو تو بھی غلط 5 تو بھی غلط فیصلہ درست ہوتا تو فاضل جج صاحبان ایک زباں ایک فیصلہ دیتے جو ٹھیک جواب ہوتا ٬ یہاں 2 منصفین کا فیصلہ کچھ اور اور باقی تین کا کچھ اور دو جمع دو چار نہیں بتاتا بلکہ تین یا پانچ بتا رہا ہے٬ایسا ظلم اس ملک پر پہلی بار نہیں ہوا ٬ اس عوام پر اس سے پہلے بھی عدالتی ظلم روا رکھا گیا ہے۔
وقت کا تقاضہ اور سیاست کا خوفناک رُخ اب تقاضہ کر رہا ہے کہ ان منصفین کیلیۓ بھی کوئی احتسابی نظام بنایا جائے جو ان کو انصاف کے وقت کسی حد کا پابند کرے٬ یہ انسان ہیں فرشتے نہیں ٬ ان کے فیصلے کسی فرد واحد کو ذہنی طور پے برباد نہیں کرتے بلکہ قومی نقصان ایسا ہوتا ہے جس کا تدارک ممکن نہیں ٬ اس وقت بظاہر آزاد خود مُختار ملک اندرونی سازشوں کے چنگل میں جکڑا دنیا میں مذاق بنا ہوا ہے۔
عدالتی فیصلے میں سقم پر صدائےاحتجاج بلند کر دی گئی ہے اور شائد سمجھداری کا تقاضہ یہی ہے کہ اس پر سنجیدہ نظر ثانی کی جائے اس ملک کے شاندار مستقبل اور دنیا میں عدالتی فیصلوں کی بقا کیلیۓ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے مُنصفین کو یہ اہم قدم اٹھا لینا چاہیے٬ ملک کا نظام تباہ ہو رہا ہو تو اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے ملک کو بچانا اہم ہے اور احسن عمل بھی ٌ٬وکلاء کے ساتھ عدلیہ کیا انداز اختیار کرتی ہے ٬ پانامہ متاثرین غور سے نگاہیں جما کر دیکھ رہے ہیں۔
اسلام کی تعلیم ہے کہ فتنہ قتل سے بڑا ہے اور بد نصیبی سے یہ فیصلہ فتنہ ہی ثابت ہو رہا ہے٬ ضرورت ہے وسیع تر قومی مفاد میں اسکو از سر نو سنجیدہ انداز میں سن کر اپنی غلطی کا ازالہ کیا جائے ٬ عدل انصاف ضرور کریں مگر سب کا سانجھا احتساب کیا جائۓ ماضی کی طرح صرف ایک خاندان ایک انسان کو مجرم بنا کر پھانسی گھاٹ تک پہنچانے والے فیصلے اب قبول نہیں کئے جائیں گے۔
اس وقت ملک جس قدر انتشار اور گومگو کی کیفیت میں مُبتلا ہے اس سے نکالنے کا واحدیہی راستہ ہے ٬ ورنہ ملک اداروں کے تصادم کی طرف خوفناک طریقے سے بڑھ رہا ہے اس تصادم کا ذمہ دار کون؟ معززین ِعدالت حلف اٹھانے کو مثال سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں۔
تم اہلِ حرف کے پندار کے ثنا گر تھے وہ آسمان ِہنر کے نجوم سامنے ہیں