نئی کلاس میں ترقی، نیا کلاس روم ، نئے ٹیچر، نیا یونیفارم، نیا سکول بیگ، نئی کتابیں اور کاپیاں،کلاس کے پہلے دن ٹیچر کا بالکل نیا اور منفردسوال، بچوکیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ میں سب سے اچھا بچہ کون ہے؟ کلاس روم میں وہی پرانا شور برپا ہوگیا ٹیچر میں سب سے اچھا، اچھی ہوں، کلاس کے 30 بچوں میں سے 29 نے اپنے آپ کو سب سے اچھا بتایا۔ شور زیادہ ہونے پر ٹیچر نے خاموش رہتے ہوئے ہاتھ ُاٹھا کر جواب دینے کا کہا تو کچھ بچوں نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کر دئیے۔
ٹیچر نے بچوں کو 10منٹ میں اپنے سب سے اچھے کی وجوہات تحریری طورپر پیش کرنے کا کہہ دیا ۔ٹیچر جی میں اس لئے سب سے اچھا ہوں کیونکہ میرا یونیفارم سب سے زیادہ صاف ستھرا اور نیا ہوتا ہے،میں اس لئے سب سے اچھی ہوں کیونکہ سکول سے چھٹی نہیں کرتی آپ کو تو پتا ہے کہ اس سال سب سے زیادہ حاضری کا انعام بھی مجھے ہی ملا ہے۔میں کلاس روم میں شور نہیں مچاتا اس لئے سب سے اچھا ہوں ،میں ہر بار پوزیشن لیتی ہوں اس لئے میں سب سے اچھی ہوں ۔میں والدین ،ٹیچرز اورسب بڑوں کی عزت کرتا ہوں اس لئے سب سے اچھا ہونے کا حق مجھے ہے۔
کچھ اسی قسم کے 29جواب ٹیچرکے سامنے پڑی میز پر پہنچ گئے جبکہ 30ویں بچی نے لکھا تھاکہ میں بہت اچھی ہوں لیکن سب سے اچھی نہیں ہوں ۔ٹیچر نے اُس بچی کواپنے پاس بلا لیا اور پوچھاکہ جب وہ بہت اچھی ہے توپھر اُسے کیوں نہیں لگتا کہ وہ سب سے اچھی ہے ؟بچی ٹیچرمیرے بابا کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنے آپ کو سب سے اچھا سمجھنا شروع کردیں گے توہمیں لگے گاکہ اب ہمیں اچھے کام کرنے کی ضرورت نہیں رہی جب ہم خود کو سب سے اچھاتصور کریں گے تو پڑھنے لکھنے میں محنت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔
ٹیچر میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ میں بہت اچھی ہوں اور مجھے مزید اچھا بننا ہے ۔اس لئے یہ سب بچے مجھ سے زیادہ اچھے ہیں اور میں یہ سوچ کر زیادہ محنت کرتی ہوں کہ مجھے ان سب سے آگے نکلنا ہے ،ٹیچر جی بابا کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے آپ کو سب سے اچھا ثابت کرنے کیلئے دوسروں کی خامیاں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ کسی کے بُرے یا کم اچھاہونے سے ہماری اچھائی میں ہرگزاضافہ نہیں ہوتا بلکہ ہماری محنت اور قابلیت ہمارے اچھے ہونے کی دلیل ہے ۔لہٰذاہمیں کسی کو بھی کم تر نہیں سمجھنا چاہئے ۔ٹیچر نے بچی کی مثال دے کربچوں کو بتایا کہ اچھا وہی ہوتا ہے جو دوسروں کو اچھا سمجھتا ہے۔قارئین محترم زندگی میں بہت سے مشاہدات سے گزرنا پڑتا ہے جن میں بہت سے انسان گمراہ کرتے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جوانسان کو انسان بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
Teacher
ایک ایسا ہی مشاہدہ میںنے آج آپ کی خدمت پیش کیا ہے جس میں ایک معصوم بچی نے اپنے بابا کی بتائی ہوئی خوبصورت باتیں ٹیچر کو بتا کر نہ صرف اپنے آپ کو اچھا ثابت کیا بلکہ اچھے ہونے کا معیار بھی سمجھا دیا جو شاید اس سے پہلے ٹیچر بھی نہیں جانتی تھی۔
اگر ہر فرد یہی روش اپنا لے تو معاشرے میں حق تلفی، غیبت کا رجحان اور بہت سی معاشرتی بُرائیاںختم ہوسکتی ہیں۔افسوس کہ آج ہم نے جو روش اپنا رکھی ہے وہ صرف دوسروں کو بُرا کہنے پر صبر نہیں کرتی بلکہ یہ بات ثابت کرنے لئے اگر کوئی بُرائی اپنے پاس سے ڈالناپڑے تو بھی ہم دوسروں کو بُرا ثابت کرنے لئے پیدا کرتے ہیں۔ہم اکثر دوسروں کی کردار کُشی کرتے وقت ایسے الزامات عائد کرتے ہیں جو شائد مخالف انسان کی زندگی تو کیا اُس کے خاندان میں بھی نہیں پائے جاتے ۔مثال کے طور پر اخبار کا پہلا صفحہ ملاخطہ فرمائیں ابھی آپ محسوس کریں گے جیسے دوسروں کو بُرا کہنا ہی دنیا میں سب سے اچھا اور مفید کام ہے۔
افسوس کے میرے صحافی بھائی بھی سیاستدانوں کی الزام تراشیاں تڑکا لگا کر عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اُس سے بھی زیادہ افسوس کہ عوام بھی ایسی ہی خبروں کو پسند کرتے ہیں جن میں الزام تراشیوں کو مرچ مصالہ لگا کر پیش کیا جائے۔
اگر یقین نہ آئے تو پھر کسی ایسے عالم دین کا کسی محفل میں ذکر کرکے دیکھ لیں جو کسی فرقے یا گرو ہ پر تنقید کرنے کی بجائے قرآن و حدیث کی بات عوام کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہو۔محفل میں جتنے فرقوں کے ماننے والے موجود ہوں گے اتنی تنقیدی آراء فوری طور پر سامنے آجائیں گی یعنی اخبار تو کیا مذہبی محافل میں بھی دوسروں پر الزامات اور تنقید کی بارش پسند کرتے ہیں اور مولوں ہمارے بہت مہنگے بکتے ہیں جو یہ کام خوب مرچ مصالہ لگا کر گرم جوشی کے ساتھ کرتے ہیں۔
مذہبی علماء سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ کسی کا بُرا ہونا ہمارے اچھے ہونے کی دلیل نہیں ہے جو مولوی مجلس کی پسند کے موضوع کو انتظامیہ کی مرضی کے مطابق یعنی حاضرین مجلس کو خوش کرکے زیادہ پیسے بنانے کی کوشش کرتے ہیں وہ شائد یہ نہیں جانتے کہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے جرم میں روز آخرت اُن کو سزا مل سکتی ہے وہاں اُن کا کوئی واقف یا رشتہ دار کام نہیں آئے گا چاہے کتنا بڑاآفیسر یا وزیر، سفیر یاجنرل، کرنل ہی کیوں نہ ہو۔ اُوپر جس بچی کی مثال پیش کرچکا ہوں اُس سے سبق سیکھ لیں جس نے دوسروں کو خود سے اچھا کہہ کر اپنا سب سے اچھا ہونا ثابت کر دیا۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر: امتیاز علی شاکر: لاہور imtiazali470@gmail.com