لاہور (اقبال کھوکھر) گزشتہ روز لاہورکے مقامی ہوٹل میں معروف قانونی وسماجی ادارے”سنٹر فارلیگل ایڈ اسسٹنس اینڈ سیٹلمنٹ””کلاس”کی سالانہ رپورٹ2015ء کی تقریب رونمائی کاانعقادکیا گیا۔ صدارت نیشنل ڈائریکٹر ”کلاس”ایم اے جوزف فرانسسMBE نے کیس جبکہ مہمان خصوصی سفیر آف نیدرلینڈ مس جینٹ سیپن (Jeannette Seppen) تھیں۔تقریب میں سماجی اداروں کے اکابرین اور قومی سطح کی شخصیات نے شرکت کی۔تقریب کے آغاز میں پروگرام آفیسر ”کلاس”ثوبیہ جان نے شرکاء خصوصاً صحافیوں کی تشریف آوری پران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سالانہ رپورٹ کا مختصر خاکہ پیش کیا۔
معززمہمان خصوصی نے ”کلاس”کی سماجی وقانونی خدمات کو سراہتے ہوئے گزشتہ سال کی رپورٹ کو معاشرے کے لئے مشعل راہ قراردیا۔ اور کلاس کی قومی ،سماجی وقانونی خدمات کو ملکی ترقی اور معاشرتی بھلائی کے لئے معاون قرار دیا۔نیشنل ڈائریکٹر’ ‘کلاس” ایم اے جوزف فرانسس نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ ادارہ ”کلاس” گزشتہ25 سالوں سے اپنی خدمات پر مبنی سالانہ رپورٹ پیش کرتا رہا ہے۔جس میں ادارے کی طرف سے معاشرے کی بہتری وسماجی ترقی میں معاونت اور سرگرمیاں شامل کی جاتی ہیں۔
اس سال بھی ہم2015ء کی سالانہ کارکردگی رپورٹ ہر خاص وعام کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ رپورٹ ہذا2015ء میں ہونے والے مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کی ایذا رسانی،بدسلوکی، تشدد ، قتل و غارت اوراقلیتوںکے حقوق کو پامال کرنے کی منظر کشی کرتی ہے۔ہم بتانا چاہتے ہیں کہ گزشتہ سالوں کی نسبت سال2015ء ہم نے پسے طبقات اور زیادتی وناانصافی کے شکار خاندانوں کو زیادہ قانونی امداد فراہم کی۔اس کے علاوہ قدرتی آفات میں بالعموم جبکہ مذہبی دہشت گردی وسانحات کے متاثرین کی معاشی وسماجی بحالی کے لئے کوشاں رہے۔اس رپورٹ میں بالکل سچائی کے ساتھ ان تمام حقائق کو بیان کیا گیا ہے جوکہ ملک کے قانون ساز اداروں کوپالیسی بنانے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ اقلیتوں سمیت محروم ومحکوم ومجبور افراد وپسماندہ علاقوں کے مکینوں کے مسائل وحالات زندگی کے تجربات کو ذمہ داری سے پیش کیا گیا ہے۔
انہوںنے کہا کہ امیدواثق ہے کہ یہ رپورٹ بہت سارے اداروں وشخصیات کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ پست حال طبقات کی آوازاقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے میں مددگارثابت ہوگی۔ہم اپنی کارکردگی پر مبنی اس رپورٹ کے مثبت اثرات کے خواہش مند ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم تجاویز دینا چاہتے ہیں کہ ملک میں زبردستی مذہب کی تبدیلی وجبراً و کم عمری کی شادی کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے کیونکہ یہ ملکی قانونی جرم بھی ہے اوریہ عمل اسلام کے بھی منافی ہے۔ایک اور امر جو بڑاتشویش ناک ہے کہ عورت سے شادی کے وقت نکاح کی عدت بھی پوری نہیں کی جاتی جو کہ اسلام کے بھی منافی ہے اورقانونی طور پر بھی سخت جرم ہے جس کی پاس داری نہیں کی جاتی اس پرماتحت عدالتیں بھی فیصلہ کرنے میں مشکلات کاشکار ہوتی ہیں۔اس صورتحال کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔
توہین مذہب کا قانون پورے ملک میں غلط استعمال ہورہا ہے ہماری تجویز ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ان دفعات کے تحت الزام لگانے والا اورجس پر الزام لگایا جائے دونوں فریقین کو پولیس تحویل میں اس وقت تک دیا جائے جب تک شفاف عدالتی تحقیقات مکمل نہ ہوں اور اس میں بھی یہ ہو کہ اگر الزام لگانے والا اپنا الزام ثابت نہ کرسکے تو مدعی مقدمہ کوبھی اسی دفعات کے تحت سزا دی جائے۔ عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے لئے بنائے گئے قانون پر سختی سے عمل کروایا جائے۔ہم حکومت پنجاب کے ان اقدامات کو سراہتے ہیں جس میں بچوں سے جبری مشقت کی پابندی لگائی گئی ہے ۔
ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے امیدکرتے ہیں کہ پنجاب انتظامیہ اس حوالے سے اپنا مثبت اور سخت کردارمستقل طور پر ادا کرے گی۔ ہم وفاقی وصوبائی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ان کے جائز حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایاجائے ۔ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ 11اگست1947ء کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی تقریر کو آئین کاحصہ بنایا جائے۔