قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کی جن نعمتوں کا بار بار ذکر کیا ہے ان میں ایک عظیم نعمت پانی بھی ہے فرمایا گیا کہ ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی میں سے پیدا کیا ہے(الانبیائ۔30)۔ انسانی خمیر جن چار عناصراربعہ سے بنایا گیا پانی اُس کا اہم جز تھا۔ ہر ذی روح کی زندگی کی بقا کا انحصار پانی پر ہے جبکہ تمام نباتات اور جمادات بھی پانی کی محتاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا کہ زمین جب مُردہ ہو جاتی ہے تو بارش آسمان سے آبِ حیات بن کر زمین سے ہم آغوش ہو جاتی ہے اور یہ عمل زندگی کو تروتازگی فراہم کرتا ہے (النحل۔65)۔ قرآنِ مجید میں پانی کا ذکر 56 بار، بارش کا 61 بار، چشمہ وغیرہ کا 26 بار اور بادلوں کا ذکر 18 بار آیا ہے یہ بات ثابت کرتی ہے کہ پانی اللہ کی ایک عظیم ترین نعمت ہے مطلب یہ کہ پانی زندگی ہے۔
قارئین کرام! آجکل ہماری سپریم کورٹ آف پاکستان نے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے کا ازخود نوٹس لیا ہوا ہے جبکہ ہر ریاست کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرے۔ عدالتِ عظمیٰ میں پیشی کے دوران صوبہ پنجاب کے چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ صاف پانی کی فراہمی کے منصوبہ پر ساڑھے چار ارب روپے سے زائد رقم خرچ کر دی گئی ہے مگر کسی کو آج تک اس منصوبے سے ایک قطرہ صاف پانی نہیں مل سکا۔ صاف پانی کمپنی کے چیف ایکزیکٹو آفیسر (CEO) نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپنا محکمہ مؤقف اپناتے ہوئے بتایا کہ پنجاب بھر میں صاف پانی منصوبہ کے لیے 150 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی تھی جس میں سے صرف چار ارب روپے کی لاگت سے 116 پلانٹ لگائے جا سکے جبکہ 300 ملین روپے کی خطیر رقم غیر مُلکی ماہرین کی خدمات کے عوض اُن کو معاوضے کے طور پر دے دی گئی۔ یہ کیس آہستہ آہستہ میگا کرپشن سکینڈل کا روپ دھار رہا ہے جبکہ ہر پیشی پر چشم کُشا حقائق سامنے آ رہے ہیں۔ پاکستانی شہری آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں صرف 20 فیصد کے قریب لوگوں کو صاف پانی کی سہولت ملتی ہے زیرِ زمین پانی میں انسانی فُضلوں کی ملاوٹ تو درکنار میرے مُلک میں سنکھیا ملے زہر کے پانی کا خطرناک انکشاف ہوا ہے۔
قارئین میرے آج کے کالم کا موضوع عالمی ادارہ صحت کی سنکھیا ملے زہریلے پانی کی اُس رپورٹ سے متعلق ہے جس میں ہوشربا انکشافات سامنے آئے ہیں مگر حکومتی مشینری کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔سنکھیا جسے عربی میں ” سم الفار” ، فارسی میں ” مرگِ موش” اور انگریزی میں (Arsenic) کہا جاتا ہے ایک معدنی زہر اور بے ذائقہ کیمیائی عنصر ہے جو زیرِ زمین لوہے اور گندھک کے ساتھ ملا ہوا پایا جاتا ہے اس کی معمولی سی مقدار (یعنی ایک اونس کا سواں حصّہ جو تقریباً 254 ملی گرام بنتی ہے جِلد اور دل کی بیماریوں سمیت پھیپھڑوں اور مثانے کے سرطان جبکہ شوگر اور کالے یرقان کا باعث بن سکتی ہے۔2003 میں جب عالمی ادارہ صحت (WHO) کی ٹیم کے ماہرین نے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے پانی کا ٹیسٹ کیا تو یہ سُن کر عوام چونک کر رہ گئے کہ پنجاب بھر کے اکثر و بیشتر علاقوںلاہور، ملتان، فیصل آباد، بہاولپور، گوجرانوالہ، ڈیرہ غازی خان ، مظفر گڑھ اور قصور وغیرہ میں لوگ پانی نہیں اصل میں زہر پی رہے ہیں لاہور کے اکثر و بیشتر ہسپتالوں میں جو مریض لائے جاتے رہے اُن میں سنکھیا سے متاثر تقریباً 100 فیصد جبکہ ملتان کے ہسپتالوں میں لائے جانے والے مریض 94 فیصد لوگ جِلد اور دل کی بیماریوں ، پھیپھڑوں اور مثانے کے سرطان ، کینسر، شوگراور کالا یرقان جیسی موذی اور جان لیوا بیماریوں میں مبتلا پائے گئے۔
قارئین !حالیہ تحقیق کے مطابق بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں زیرِ زمین پانی میں اس زہریلے اور خطرناک مادے کی انتہائی زیادہ مقدار میں آمیزش کا انکشاف ہوا ہے جس کے مطابق پاکستان کے مختلف علاقوں حیدرآباد، وسطی سندھ، بالائی سندھ، جنوبی پنجاب، وسطی پنجاب اور دریائے سندھ کے میدانی علاقوں میں رہائش پذیر پانچ سے چھ کروڑ افراد گذشتہ چند سالوں سے سنکھیا ملا زہر آلود پانی پینے پر مجبور ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان سے لیے گئے پانی کے نمونوں میں سنکھیا کی مقدار کافی حد تک کم تھی جبکہ صوبہ بلوچستان کے صرف دو مقامات پر زیرِ زمین پانی میں سنکھیا کی مقدار نوٹ کی گئی ۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) کی جانب سے ملک بھر میں حاصل کردہ زیرِ زمین پانی کے 12 سو نمونوں کے ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ ان میں یہ زہریلا مادہ سنکھیا وافر مقدار میں موجود ہے جس کے طویل عرصہ تک استعمال کیے جانے کی وجہ سے انتہائی خطرناک جان لیوا بیماریاں لاحق ہونے کے خطرات یقینی طور پر موجود ہیں۔WHO کی رپورٹ میں جن خطرناک بیماریوں کا تذکرہ ہے ان میں جِلد کی بیماریاں، دل کی بیماریاں، پھیپھڑوں اور مثانے کے سرطان، عام کینسر، شوگر اور کالا یرقان شامل ہیں۔
سائنس ایڈوانسز نامی جریدے میں جاری ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق 2012 تا 2015 کے درمیانی دو سالوں میں 12 سو مقامات سے حاصل ہونے والے زیرِ زمین پانی کے نمونوں کی تحقیق کی بنیادپر معلوم ہوا کہ پاکستان میں پانی کے بیشتر کنوئوں میں سنکھیا کی مقدار (WHO) کے طے کردہ معیار سے پانچ گنا زیادہ ہے رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ دُنیا بھر میں 15 کروڑ سے زائد لوگ اس زہر آلود پانی سے براہِ راست متاثر ہیں جبکہ نئی تحقیق سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں زیرِ زمین پانی کے بیشتر نمونوں میں سنکھیا کی مقدار 51 مائیکروگرام فی لیٹر سے بڑھ کر 200 مائیکرو گرام فی لیٹر تک پہنچ چکی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ان نمونوں میں سنکھیا کی مقدار محفوظ عالمی حدود سے 5 تا 97 گُنا زیادہ ہے جبکہ وطنِ عزیز کے مقرر کردہ معیارات کے تناظر میں محفوظ حد سے بڑھ کر انتہائی تشویشناک طریقے سے 19 گنا زیادہ ہو چکی ہے۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) کی رپورٹ کے مطابق ایک لیٹر پانی میں سنکھیا کی مقدار زیادہ سے زیادہ 10 مائیکرو گرام تک ہونی چاہیئے۔جبکہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے مقرر کردہ زیادہ سے زیادہ شرح 50 فیصد تک ہونی چاہیئے تو قابلِ قبول ہے جبکہ بدقسمتی سے اس وقت پاکستانی شہری جو پانی استعمال کر رہے ہیں اُس میں WHO کی مقرر کردہ شرح تو درکنار پاکستان میں رائج قابلِ قبول شرح سے کئی گنا زیادہ سنکھیا ملا پانی دستیاب ہے اور اُس میں اس زہر آلود مادے کی آمیزش موجود ہے ۔ ماہرین کے مطابق 60 فیصد سے زائد بیماریاں ایسی ہے جو پانی کی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور اس اہم مسئلہ کی جانب سے حکومتی پہلو تہی اور پردہ پوشی کی وجہ سے معاشرے کے اکثر و بیشتر حصّے میں مُہلک اور خطرناک بیماریاں رُکنے کا نام نہیں لے رہیں جن کے علاج و معالجے پر کروڑوں اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں مگر بنیادی وجوہات ہیں کہ یکسر نظرانداز کی جا رہی ہیں ریاست اگر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے یہی اربوں روپے لگا کر اپنے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کر دے تو نہ صرف اس سے معاشرہ صحت مند رہے گا بلکہ اس قدر زیادہ دولت کا ضیاع بھی بچ جائے گاجو ہم ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ضائع کر رہے ہیں۔
اس کے لیے صرف اور صرف خلوصِ نیت، بہترین حکمت عملی و منصوبہ بندی درکار ہے اس میں شک نہیں کہ پینے کا صاف پانی ہر انسان کی زندگی کی ایک اہم اور بنیادی ضرورت ہے اور ترقی یافتہ قومیں اپنے شہریوں کی ہر بنیادی ضروریات کا خیال رکھتی ہیں اسی وجہ سے وہ کامیاب اور ترقی یافتہ کہلاتی ہیں وہ ریاستیںاور حکومتیں ناکام ہیں جو اپنے مظلوم اور قابلِ رحم عوام کے بنیادی مسائل اور اُن کی اوّلین ضروریات سے بھی مُنہ پھیر لیں اور انہیں اپنے ہی خلاف ہر قسم کی لب کُشائی کا موقع فراہم کریں حکومتِ پاکستان اور حکومتِ پنجاب کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیئے کہ وہ اگر WHO کے مقرر کردہ معیار ایک لیٹر پانی میں 10 مائیکرو گرام فی لیٹر تک ہی برقرار رکھ لیں خدارا شہریوں کو پانی کے نام پر زہر نہ پلائیں نمونہ جات کو ریگولر بنیادوں پر ٹیسٹ کیا جائے سنکھیا کی مقدار کو مقرر ہ حد تک لانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر جدید سائنسی تقاضوں کے مطابق عملی اقدامات کیے جائیں عدالتِ عظمیٰ بھی واضح احکامات جاری کرے اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اتھارٹی قائم کرے اور اس کی ازخود نگرانی کرتے ہوئے اسے مثبت انداز میں منطقی انجام تک پہنچا کر اللہ کی اس عظیم نعمت کی خالص بنیادوں پراللہ کے بندوں کو فراہمی یقینی بنانے میں اپنا حصّہ بھرپور حصّہ ڈالے جس سے پاکستانی شہری سُکھ کا سانس لے سکیں۔ کیونکہ صحت مند افراد سے ہی صحت مند معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔