تحریر : شیخ خالد زاہد گھر کی چھتوں کی زیادہ صفائی کرنے سے بڑے منع کرتے ہیں اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بارشوں میں پانی آنے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ صدیوں کی گرد مٹی پیدا شدہ سوراخوں کو بند کردیتی ہے اور زیادہ صفائی کرنے سے وہ سوراخ کھل جاتے اور تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے سے سوراخ جن سے برسات میں پانی کے ٹپکنے کا خطرہ تو رہتا ہی ہے دوسری طرف سورج کی روشنی بھی ان سوراخوں سے داخل ہوکر مکینوں کا مذاق اڑاتی دیکھائی دیتی ہے۔ ایسی نا سہی مگر کسی حد تک اس سے ممثلت رکھتی صفائی کا کام پاکستان میں چل رہا ہے۔ پاکستان میں یقیناًایسا پہلی دفعہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ وزیرِاعظم اور انکے خاندان کی پیشیاں چل رہی ہیں اور بہت ہی تواتر سے چل رہی ہیں اور یہ خاندان پیشیاں بھگت رہا ہے ۔ یہ پیشیاں وزیرِاعظم کے خاندان کا نام پانامہ پیپرز میں آنے کی وجہ سے چل رہی ہیں۔ لیکن کیا پانامہ پیپرز میں نام آنا ان پیشیوں کے لئے کافی تھا ؟
دنیا میں اور بھی بہت سارے افراد اس میگا کرپشن اسکینڈل کی ذد میں آئے اور ان میں سے اکثریت ایسے افراد کی تھی جنہوں نے اپنے اپنے عہدوں سے فوری طور پر اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستعفی ہوگئے یا اپنے آپ کو تحقیقات کیلئے پیش کردیا۔ ان معتبر افراد میں کچھ ممالک کے وزیرِ اعظم بھی تھے جن میں اول نمبر پر برطانیہ کے وزیرِاعظم تھے جو اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ اس کرپشن ذدہ فہرست میں پاکستان بھی کا نام بھی آیا اور جہاں دیگر افراد اس فہرست کی زینت بنے تھے وہیں ایک انتہائی معتبر نام ہمارے موجودہ وزیرِاعظم کے اہلِ خانہ کا بھی ہے۔ پاکستان میں سیاست بغیر اخلاقیات کے پل بڑھ رہی ہے جسکی وجہ سے وزیرِ اعظم نے اپنے خاندان کو تحقیقات کیلئے پیش تو کیا مگر بغیر اپنا عہدہ چھوڑے ہوئے۔ جسکی وجہ سے عام آدمی کے تحفظات اپنی جگہ موجود ہیں کہ تحقیقات بغیر کسی دباؤ کے ہو سکے گی یا نہیں۔ ہم پاکستانی بہت اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جسکی لاٹھی اسکی بھینس والا قانون نافذ ہے ، اسلئے پانامہ پر ہونے والی تحقیقات سے کسی غیر جانبداری کی تواقع عجیب سے بات لگتی ہے۔
پاکستان میں تین سو سے زائد سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہیں جبکہ بامشکل بیس جماعتیں الیکشن کا حصہ بنتی ہیں۔ ان تمام سیاسی جماعتوں کا کام سوائے مختلف معاملات پر احتجاج کرنا ہوتا ہے ان کے پاس سیاسی کارکن ہوں یا نا ہوں یہ کچھ خرچہ کر کے لوگوں کو جمع کرلیتی ہیں۔ یا پھر بڑی سیاسی جماعتوں کی ذیلی جماعت کا کردار بھی ادا کرتی دیکھائی دیتی ہیں۔
جب سے پانامہ کا معالمہ چل رہا ہے پاکستان اور پاکستانیوں کو کچھ کرنے کو نہیں مل رہا یہاں تک کہ صبح و شام جے آئی ٹی کی مکمل فارم جانینے میں سرگرداں ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے کارکنان بھی سیاسی داؤ پیش سے کسی حد تک اپنی جماعت کے سیاسی منشور سے واقف ہی نہیں ہوتے ۔ بھیڑ چال سیاست چلی جا رہی ہے۔
مسلم لیگ ، پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی ، بلوچستاں نیشنل پارٹی ، متحدہ قومی موومنٹ یہ وہ سیاسی جماعتیں تھیں جو پاکستان میں اپنی اپنی سیاست میں برسرِپیکار تھیں، پھر بہت ساری سیاسی جماعتوں میں ایک اور سیاسی جماعت کا اضافہ ہوا جس کا نام پاکستان تحریکِ انصاف تھا ۔ انصاف کا داعی کوئی اور نہیں پاکستانی قوم کے دل میں پہلے سے ہی جگہ بنائے ہوئے ورلڈکپ جیتنے والی کرکٹ ٹیم کے کپتان اور شوکت خانم کینسر ہسپتال کے روح رواں عمران خان بنے۔ خان صاحب پہلے سے ہی پاکستانیوں کے دل میں گھر کئے ہوئے تھے مگر ہمارا سیاسی ماحول ایسا نا تھا کہ کسی بھی فرد کو اتنی آسانی سے جگہ دے دیتا مگر خان صاحب آخری گیند تک لڑنے اور لڑانے کا ہنر جانتے ہیں۔ وہ یہ بھی بہت اچھی طرح جانتے تھے کے قدرت حق اور سچ کی مدد ضرور کرتی ہے وہ انصاف کا علم لے کر چلتے رہے ۔ ایک طویل اور تھکادینے والا سفر شروع کیا اور کسی شورٹ کٹ کا سہارا نا لینے کا عہد کیا۔ پاکستان میں سب کچھ ہے مگر مخلص سیاست دان نہیں ہیں، سب اپنااپنا بھرتے رہے اور اپنے حواریوں اور پجاریوں کو نوازتے رہے اپنی جائیدادیں پاکستانی عوام کے ٹیکس سے بیرونِ ملک خریدتے رہے۔ پاکستان تحریک انصاف سارے موسم جھیل گئی اور ایک چھوٹا سا پودا آج ایک تناور درخت بن چکا ہے اور ان پرانے درختوں سے زیادہ توانا نظر آرہا ہے جن کی آبیاری جھوٹ اور انا سے کی جاتی رہے تھی۔
پاکستان تحریکِ انصاف نے جہاں ملک کی ایک اہم ترین سیاسی جماعت کی حیثیت حاصل کر لی ہے تو دوسری طرف موروثی سیاست کو بھی بھر پور تنقید کا نشانہ بنایا۔ پاکستانی سیاست میں متحدہ قومی مومنٹ نے متوسط طبقے کی نمائندہ جماعت ہونے کی بھرپور داغ بیل ڈالی اور متوسط طبقے کو پاکستان کے جاگیرداروں ، وڈیروں اور زمینداروں کے ساتھ اسمبلیوں تک پہنچایا اورانکے ساتھ بیٹھایا۔ یعنی دوطرح کی سیاسی جماعتیں پاکستان میں ایک عرصے تک سیاست کرتی رہیں۔ لیکن کوئی بھی پاکستان سے مخلص ہونے کا منہ بولتا ثبوت دینے سے قاصر رہی۔ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے بانی عمران خان نے سیاست میں بہت کچھ نیا کرنے کی ٹھانی اور اپنی جماعت میں ہر طبقے اور مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو جگہ دی اور اسمبلیوں تک پہنچایا۔ پاکستان تحریکِ انصاف اور عمران خان پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے نوجوان نسل کو بدزبانی سکھائی ہے اور بے ادب بھی کر دیا ہے ۔ تو بات دراصل یہ ہے کہ عمران خان خود تو ایک عمر رسیدہ فرد ہیں لیکن انکی سوچ اور جسمانی ساخت نوجوان ہے اور نوجوانوں کو انکا حق لینے کا طریقہ سیکھا رہے ہیں وہ سچ بولنے کی ترغیب دے رہے ہیں وہ نوجوانوں سے بلکہ پوری پاکستانی قوم سے یہ تقاضہ کر رہے ہیں کہ سچ بولو اور اپنے حق کیلئے آواز اٹھاؤ اور اپنے لئے انصاف مانگو اپنی آنے والی نسلوں کیلئے انصاف مانگو۔ یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ سچ کڑوا ہوتا ہے اور انکے لئے تو زیادہ ہی کڑوا ہوتا ہے جن کے جھوٹ پر جھوٹ پکڑے جا رہے ہوں۔
پانامہ کا فیصلہ کچھ بھی ہو، پیپلز پارٹی احتساب سے چھپتی پھرے ، متحدہ قومی موومنٹ متحد نا ہو یا تحریک انصاف کا مستقبل کچھ بھی ہو مگر عوام کو کچھ نا کچھ تو شعور آرہا ہے ، اس شعور کی بدولت کچھ نا کچھ تو بدل رہا ہے ۔ انشاء اللہ ہم دیکھنگے کے پاکستان بدلے گا اور اس کا سہرا عمران خان کے سر ہی بندھے گاکیونکہ قدرت بہادروں کا ساتھ دیا کرتی اور بہادر جھوٹے اور مفاد پرست نہیں ہوا کرتے۔