تحریر: سید سبطین شاہ کیا صفائی کا نظام بہتر بنا کر پاکستان کو ایک صحت مند معاشرہ بنایا جا سکتاہ ے؟ اس سوال کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے: صفائی ستھرائی کے ذریعے نہ صرف لوگوں کو متعدد بیماریوں سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے بلکہ ان بیماریوں پر خرچ ہونے والے رقوم بھی بچایا جا سکتا ہے۔ آج کے جدید دور میں تو صفائی سے حاصل ہونے والے کوڑا کرکٹ سے توانائی اورفصلوں کے لئے کھادبھی حاصل کی جا سکتی ہے۔
واقعاً صفائی ستھرائی انسان کی زندگی کا لازمی جز ء ہے۔انسان کا تعلق کسی بھی معاشرے اورطبقے یا مذہب سے ہو، بلاتفریق مذہب و نسل ایک اچھی اور صحت مند زندگی کے لئے صفائی ستھرائی لازمی ہے۔اگراسلام کی بات کی جائے تو اس آفاقی دین کے نزدیک صفائی نصف ایمان کا درجہ رکھتی ہے۔ دنیا میں بہت سے لوگ جو پہلے پہل صفائی کا خیال نہیں رکھتے تھے لیکن اب شعور آنے پر اس بات پر خاص توجہ دیتے ہیں کہ صفائی کے بغیر وہ اپنی زندگی کو سہل اور صحت مند نہیں بناسکتے۔ ہمارے ملک پاکستان کا یہ حال ہے کہ صفائی نے ہونے کی وجہ سے عوام متعدد بیماریوں کا شکارہورہے ہیں۔ اگر گھرسے شروع کیاجائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اکثر گھروں میں خواتین ہی صفائی کا خیال رکھتی ہیں۔
اکثراوقات دیکھنے میں یہ آیاہے کہ مرد صفائی ستھرائی میں عورتوں کا ہاتھ نہیں بٹاتے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات مرد گھروں میں خواتین کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے بجائے ، ان کی مشقت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ بعض مرد تو ایسے ہیں کہ اٹھا کر پانی پینا بھی گوارا نہیں کرتے بلکہ چارپائی یا کرسی پر بیٹھ کر عورت کو بادشاہوں کی طرح حکم دیتے ہیں کہ وہ ایک گلاس پانی اس کے لئے لے آئے۔ پاکستانی معاشرے میں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ فالتو چیزیں، کوڑا کرکٹ اپنی گلیوں اور سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں۔ حتیٰ بعض لوگ پارکوں سمیت دیگر صاف ستھری جگہوں پر کوڑا پھینکنا اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں۔پوری قوم کو تربیت اوررہنمائی کی ضرورت ہے ۔ جو لوگ خود سیکھ چکے ہیں ، انہیں چاہیے کہ وہ دوسروں کو سمجھائیں۔لوگوں کو سمجھایاجائے کہ پہلے تو گندگی سے ان کا اپنا نقصان ہے اور پھر اس سے پورے معاشرے پر مضراثرات مرتب ہوتے ہیں۔ صفائی نے ہونے کی وجہ سے شہروں کی نالیاں اورگلیاں بے شمار بیماریاں پھیلارہی ہیں۔ ندی نالے بھی فالتو پلاسٹک بیگ اور دیگر ناکارہ اشیاء سے بھرچکے ہیں۔اس ماحول نے ملک کے دریاؤں اور سمندروں کو بھی آلودہ کردیاہے۔قدرتی ماحول بہت متاثر ہوچکاہے۔
Cleanliness
ندی نالوں اور دریاؤوں میں آلودگی کے علاوہ خوبصورت پہاڑ اورمیدانی زمینیں درختوں سے خالی ہوتی جارہی ہیں۔درخت کاٹنے والے بہت اور لگانے والے کم ہیں۔ صفائی کے حوالے سے پاکستان میں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ صفائی کرنے والے کی کوئی خاص عزت نہیں اور نہ ہی کوئی معقول معاوضہ ملتاہے۔
پاکستان میں اکثر صفائی کا کام مسیح برادری کے لوگ کرتے ہیں جن سے کوئی احترام کے ساتھ بات کرنابھی پسند نہیں کرتا۔حالیہ دنوں سند ھ کے علاقے عمرکوٹ میں ایک صفائی والے شخص عرفان مسیح کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا سلوک ہوا اور اسی غفلت کی وجہ سے اس کی جان چلی گئی۔ان تمام مایوسیوں کے باوجود کچھ پاکستانی ایسے ہیں کہ جو اپنے ملک کے لئے کچھ کرناچاہتے ہیں۔ اسی طرح کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نارویجن پاکستانی محمدطارق اشرف ہیں جنھوں نے ضلع جہلم کے ایک چھوٹے شہرسوہاوہ میں روشنی کی ایک شمع روشنی کی۔محمد طارق کے والدمحمد اشرف المعروف جنرل اشرف سترکی دہائی میں ناروے آگئے تھے اور اس لئے ان کی تعلیم و پرورش بھی ناروے میں ہوئی لیکن جب بھی وہ پاکستان جاتے تو ان کو یہ خیال ہمیشہ ستاتاتھا کہ پاکستان جیساایک خوبصورت ملک کیوں صاف ستھرانہیں۔ لہذا انھوں نے چند سال قبل سوہاوہ میں اپنی مددآپ کے تحت صفائی کا ایک پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا ۔ پوری ایک ٹیم بنائی، اس کی تربیت کی جو جدید طریقے اپناتے ہوئے لوگوں کو گلیوں اور سڑکوں کی صفائی کی طرف راغب کرتی ہے ۔ ان کی ٹیم نے گھر گھرجارکر کوڑا کرکٹ جمع کرناشروع کردیا۔ پلاسٹک اور دیگر قابل استعمال اشیاء کو کوڑے سے الگ کیاگیاتاکہ کسی دوسرے کام آسکے۔یہ پراجیکٹ سوہاوہ کے علاوہ دینہ کے علاقے میں بھی پھیلایاگیا۔
انہیں حکومت کی طرف سے کوئی خاص حوصلہ افزائی نہیں ملی لیکن سوہاوہ اور دینہ کے لوگ یہ سمجھ گئے کہ صفائی کے بغیروہ ایک صحت مند زندگی بسرنہیں کرسکتے ۔ ان کا کہناہے کہ اگرحکومت پاکستان سرپرستی کرے تو اس طرح کے منصوبوں کو پورے ملک میں پھیلایاجاسکتاہے۔محمد طارق کا کہناہے کہ پاکستان کے لوگ انتہائی قابل اور ذہن ہیں لیکن سرپرستی اوررہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی قابلیت ضائع ہورہی ہے۔محمدطارق کی باتیں انتہائی درست ہیں اور ان کی کاو شیں بہت قابل ستائش ہیں ۔گذشتہ دنوں ناروے کے سفر کے دوران راقم نے موصوف کے ساتھ ایک مکالمہ کیا۔
Cleanliness
راقم نے درک کیاکہ محمدطارق جن والد محمد اشرف مرحوم بھی اپنے وطن سے بہت محبت کرتے تھے، پاکستان کے حوالے سے مایوس نہیں لیکن پریشان ضرور ہیں۔محمد طارق کہتے ہیں کہ جب انھوں نے چند سال قبل اپنے علاقے سے صفائی کا کام شروع کیاتو لوگوں نے بہت طنز کیااور کہناشروع کردیاکہ صفائی بھی کوئی کام ہے، یہ تو چوڑے لوگ کرتے ہیں۔بلاخر آہستہ آہستہ لوگوں کو سمجھ آنا شروع کردیاکہ صفائی ان کی صحت اور ماحول کے لیے لازمی ہے۔ اس پراجیکٹ سے سوہاوہ اور دینہ میں پچیس افراد کو روزگار ملا۔اب یہ پراجیکٹ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوچکاہے۔اس سے ماحول بہتر ہوگیاہے اور ساتھ ہی لوگوں کونئی سوچ بھی ملی ہے۔
باہرکی دنیامیں محمدطارق کی طرح بہت سے اورپاکستانی بھی ہیں جو پاکستان آکر اپنے تجربات اور صلاحیتوں سے ملک کو سنوارناچاہتے ہیں لیکن سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہچکچاہت کا شکارہیں۔باہررہنے والے پاکستانی تقریباً ہرشعبے میں مہارت رکھتے ہیں۔ خدا را اس ملک کی قابلیت کو ضائع ہونے سے بچایاجائے۔کچھ تو خیال کیاجائے۔اپناخیال نہیں تو آنے والی نسلوں پر رحم کیاجائے۔