اسلام میں پاکیزگی کا,طہارت کا,صفائی و ستھرائی کا جو ذکر کیا گیا ہے اور جو تاکید کی گئی ہے کسی اور دین میں اتنی تاکیدات نہیں موجود ہیں…اسلام کا آپ اگر مجھ سے دوسرا نام پوچھیں تو وہ صفائی ہے… ہمیں ظاہر اور باطن کی طہارت و پاکیزگی, فکر و خیال اور عفت قلب و نظر اور جسم و جان کی پاکیزگی کا سلیقہ و طریقہ اسلام ہمیں دیتا ہے… حضرت محمد صہ کا فرمان کتنا واضح ہے:پاکیزگی ایمان کی شرط ہے۔۔دل۔ دماغ۔جسم۔ کپڑے ان سب کا پاک ہونا ضروری ہے۔۔کپڑے ناپاک ہوں تو تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ دل دماغ۔جسم تبدیل نہیں کر سکتے۔۔سو انہیں پاک کرنا ہی پڑے گا۔۔
جہاں ناپاکی ہو گی وہاں ایمان نہیں ہو گا۔ اور جب ایمان نہیں تو سب عمل بیکار۔اس لیے پاک رہو۔نصف ایمان صفائی کو کہا گیا اسلام نے اپنے ماننے والوں کو پیدائش سے لے کر مرنے تک ہمیشہ صفائی کی تلقین کی گئی ہے, جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو پیدائش کے بعد سب سے پہلے اسے غسل دیا جاتا ہے پھر اسکی صفائی ستھرائی کا اس کی ماں خیال رکھتی ہے, جب وہ خود چلنے کے قابل ہو جاتا ہے سنبھلتا ہے تو پھر احکام اسکے اوپر نافذ ہوتے ہیں اور پنجگانہ نماز ادا کرنے سے پہلے وضو کرنے کو لازم قرار دیا گیا ہے, اور وضو سے پہلے مسواک کی بھی تلقین کی گء ہے….
حضور صہ نے فرمایا”اگر میں اپنی امت کو مشکل محسوس نہ کرتا کہ مشکل میں پڑ جائے گی تو میں انکے اوپر مسواک فرض قرار دے دیتا”مسواک وضو سے پہلے کرنے کی تلقین کی گء ہے حجامت فطرت مسلمان بیان کی گء ہے اور غیر ضروری بال نہ رکھنے کو کہا گیا ہے اگر زلفیں رکھے تو اس کی صفائی کا خیال رکھے,سنوار کر رکھے جو آجکل دیکھا جاتا ہے کہ چاہے مرد ہوں یا خواتین زلفیں رکھ تو لیتے ہیں مگر انکی صفائی کا خیال نہیں رکھتے… ہمیں صاف ستھرا لباس پہننے کی تلقین کی گء ہے,لباس پرانا ہو بیشک مگر صاف ہونا چاہیے, میلا کچیلا نہ ہو, صاف انسان بننے کی تلقین کی گء ہے, ہمیں تو صفائی کا اتنا خیال رکھنا چاہیے جتنا ہمارے دین اسلام نے رکھا ہے, جب کوئی شخص مرتا ہے تو اس کو غسل دیا جاتا ہے جبکہ وہ فوت ہوچکا ہے, سفید لباس کا کفن بھی صفائی کی علامت ہے, کوئی دنیا کا مذہب اس قدر صفائی کی تلقین اور خیال نہیں رکھتا جتنا اسلام میں ہے, اسی طرح ہمیں اپنے ساتھ اپنے آس پاس کے علاقے گھر, گلی, محلے کی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے, آج کے دور میں اگر ہم اپنے ارد گرد دیکھیں گلی, محلے میں,عبادت گاہوں کو اور ان کا موازنہ دوسرے ممالک کی صفائی ستھرائی سے کریں تو ہمیں شرمندگی محسوس ہونے لگے گی, یہ اس لی? کہ ہم دین سے بہت زیادہ دور ہوچکے ہیں اسلیے گندگی کے ڈھیر گلی گلی لگے ہیں, گھر کو صاف کر کے اسکا کوڑا کرکٹ گلی میں پھینک دیتے ہیں یا ہمسا? کے گھر کے آگے ڈال دیتے ہیں۔
رات کے اندھیرے میں کہیں بھی گندگی کو پھینک دیا جاتا ہے, کچھ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت یا حکومت کی مدد سے بڑے بڑے کوڑادان رکھواتے ہیں لیکن ہم اس کے اندر خیال سے ڈالنا بھی گوارا نہیں کرتے کء جگہ وہ کوڑا پھیل کر گندگی پھیلا رہا ہوتا ہے, ہمیں اپنے آپ اور ارد گرد کو صاف رکھنے کی ضرورت ہے, سب سے پہلے ہمیں خود کو ٹھیک کرنا ہوگا جو مذہب پیدائش سے موت تک صفائی کی تلقین کرتا ہے اس لیے ہی ہمیں صفائی کو عام کرنا ہوگا…. ہم صرف حکومت کو الزام دیتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں کرتی صفائی کا خیال نہیں رکھتی لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود بھی کچھ کریں جب تک ہم نہیں بدلیں گے حکومت کچھ نہیں کر سکتی…
ہمیں اپنے محلے, گلیوں,بازاروں اور سڑکوں کو خود ہی صاف کرنا ہوگا ہم آج اکیلے ایک قدم بڑھائیں گے تبھی ہمارے دیکھا دیکھی ہی سہی ہمارے ساتھ صفائی دوسرے بھی آگے بڑھیں گے, جب تک ہم خود کچھ نہیں کرتے تب تک ہم سوچ نہیں بدل سکتے… دنیا میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں صفائی کی بہت ضرورت ہوتی ہے مگر وہیں صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا, مساجد, دینی مدارس, سکول کی بات کر رہی ہوں, ہم اسی جگہ پڑھتے ہیں ‘صفائی نصف ایمان ہے ‘ اور انھی جگہوں پر اس بات پہ سب سے کم عمل کیا جاتا ہے…. میں پاکستان کی صرف بات نہیں کر رہی دنیا کے دوسرے ممالک چاہے انڈیا ہو ایران ہو, عراق یا پھر سعودی عرب چلے جائیں حرم پاک کے علاوہ آپ کو اکثر نظر آئے گا کہ صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا غسل خانوں میں گندگی اور ناپاکی نظر آئے گی, گندہ پانی زمین پہ بکھرا ہوتا ہے, وہاں صاف پانی سے دھونا تو دور کی بات ہے جگہ جگہ گندگی پھیلائی جاتی ہے, اس سے تو خود آپ کے کپڑے گندے ہوتے ہیں,یہ مساجد کا حال ہے جہاں یہ حدیث پڑھائی جاتی ہے صفائی نصف ایمان ہے…
پانچ وقت کی نماز پڑھنے کا, روزے رکھنے کا ہرگز مطلب نہیں کہ ہم صفائی پہ دھیان نہ دیں, بات صرف یہیں تک نہیں ہے اصل دین کی دوری نے ہمیں صفائی سے اتنا دور کر دیا ہے کہ ہم اپنے ملک تک کی پرواہ نہیں کرتے, ہم کیوں نہیں سوچتے جس دین نے ہمیں سکھایا ہے کہ پانچ وقت کی نماز, پڑھیں, حج کریں, روزے رکھیں, اسی دین نے ہمیں یہ بھی سکھایا ہے کہ خود کو صاف رکھیں اپنے کپڑوں کو صاف رکھیں, صفائی نصف ایمان ہے کتنی اہمیت اسلام نے صفائی کو دی ہے اور ہم خود کو اور اپنے آس پاس کو بھی صاف نہیں رکھتے, اصل تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صفائی تو دل و روح کی ہوتی ہے ارد گرد سے کیا ہوتا ہے, تو ذرا یہ بھی سوچ لیں کہ ہم جیسی جگہ رہتے ہیں ویسی سوچ ہونے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے ہم اداس ماحول میں رہیں تو اداس ہو جاتے ہیں, خوشی کے ماحول میں خوش ہو جاتے ہیں۔
تو کیا ہم گندی جگہ رہیں گے تو گندے نہیں ہوں گے, خدارا کچھ خود خیال رکھیں دوسروں کی نا سہی, چلو دین کی بھی چھوڑ دو, اللہ اور اس کے رسول صہ کی بات بھی چھوڑو خود کے لیے تو صفائی کا خیال رکھو… ہمیں پہلا کلمہ پڑھایا جاتا ہے جس کا مطلب ہی پاک ہے اتنا زور ہے اسلام کا پاکی پہ لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ پتا نہیں ہمیں کیا ہو جاتا ہے.. کء لوگ حج کرنے جاتے ہیں ائیر پورٹ تک کء لوگ حج کرنے جاتے ہیں ائیر پورٹ تک میں صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا وہیں جب مغرب کا سفر کرو تو وہاں دیکھو لوگ خود کرتے ہیں صفائی, انھوں نے یہ سب ہمارے دین اسلام سے سیکھ کر اپنا لیا اور ہم جن کے لیے خاص یہ دین اسلام آیا, جن کے لییے یہ ملک اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے پاکستان بنا ہم خود ان تعلیمات کو چھوڑ چکے ہیں, کفار ممالک جن کو ہم اکثر گالیاں دیتے ہیں ان کے ممالک کے گھر, سڑک اور یہاں تک کہ غسل خانے بھی صاف ہوتے ہیں, اور ہم اپنی سڑک تک صاف نہیں رکھ سکتے۔
Cleaning
ہم اپنے گھر, گلی محلے کو بھی خود صاف کر لیتے ہیں لیکن مساجد ان کے غسل خانے ان کی صفائی کا خیال کبھی نہیں آیا جہاں ہر روز 5 وقت کے لیے کئی لوگ آتے ہیں نماز ادا کرتے ہیں, سب گندگی ہے,گندگی ہے کی بات تو کرتے ہیں مگر کوئی یہ زحمت نہیں کرتا کہ خود آگے بڑھ کے صاف کر دے اپنے گھروں کو بھی تو صاف رکھتے ہو, تو مسجد اللہ کے گھر کی صفائی کے لیے دوسرے پہ کیوں منحصر ہوتے ہیں, گھر کی صفائی کی بات ہو تو گھر تو اپنا ہے ہم ہی صاف کریں گے تو اللہ کا گھر اسے صاف کرنا ہمارا فرض نہیں میرے ہم وطنوں خود آگے بڑھو اسلام اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صہ کے پیغام ‘صفائی نصف ایمان ہے ‘ کو عام کرو اپنے بچوں کو سکھاؤ تاکہ وہ یہ سلسلہ آگے بڑھائیں اور یوں نسل در نسل یہ صفائی کی عادت عام ہو اور ہمارا ملک امن کے ساتھ صفائی کا گہورا بن جائے میری دعا ہے رب العالمین سے وہ ہم سب کو ایمان کی شرط صفائی پہ پورا اترنے کی توفیق عطا کرے! آمین یا رب العالمین۔