جنوبی ایشیا کے ممالک اس وقت موسمیاتی تبدیلی کے باعث بارشوں و سیلاب کے بحران سے گذررہے ہیں۔ پاکستان، افغانستان، بھارت، بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک میں مون سون کی بارشوں کے باعث سیلاب و انفراسٹرکچر کی تباہی کے علاوہ سیکڑوں قیمتی جانوں کا نقصان کا ہوچکا ہے۔ عالمی موسمیاتی تنظیم کے سیکریٹری جنرل پیٹری تالاس کہتے ہیں کہ ’آب و ہوا کی تبدیلی محض تبدیلی نہیں ہے۔ بلکہ ان تبدیلیوں سے سمندر، آبی وسائل، ماحولیاتی نظام، فوڈ سیکیورٹی اور پورے کرہ ارض کی پائیدار ترقی متاثر ہوتی ہے۔‘ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا موسمیاتی تبدیلیوں سے غیر محفوظ ہونے کا عالمی طور پر اعتراف کیا گیا ہے اور پچھلی ایک دہائی کے دوران موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدید موسمیاتی واقعات بشمول سیلاب، قحط سالی، گلیشیئر پگھلنے سے بننے والی جھیلوں کے پھٹنے سے آنے والے سیلاب، سائیکلون اور ہیٹ ویو کے باعث نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان ہوا بلکہ ملکیتیں اور ملکی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا۔اس حوالے سے پاکستان میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ سمیت کئی چھوٹے بڑے شہر و دیہات متاثر ہوئے ہیں۔بالخصوص کراچی میں بارش کا90برس کا ریکارڈ ٹوٹااور پورے شہر کا انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا۔
رواں برس جنوبی ایشیا میں شدید بارشوں اور سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی آئی ہے اور سیکڑوں افراد جاں بحق جبکہ ہزاروں نقل مکانی پر مجبور ہو ئے۔چین کو رواں برس شدید بارشوں کے باعث 30 سال میں آنے والے بدترین سیلاب کا سامنا ہوا،جس کے باعث ملک کے 33 دریا تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی بلند ترین سطح تک پہنچے۔بھارتی ریاست آسام میں بارشوں اور سیلاب سے ہزاروں افراد بے گھر ہوئے۔بھارت میں مون سون کی بارشوں اور سیلاب سے سب سے زیاد ہلاکتیں ریاست کیرالا میں ہوئیں اور تقریباً دس لاکھ افراد کو ہنگامی حالات کا سامنا ہوا۔ماہ اگست میں بھارت میں مون سون بارشوں نے تباہی مچائی۔ممبئی میں ریکارڈ توڑ بارش نے نظام زندگی مفلوج کردیا،جب کہ بھارت کے کئی شہروں میں شدید بارشوں کے بعد سیلابی صورتحال درپیش ہے۔ ممبئی کے جنوبی علاقوں میں 300 ملی میٹر سے زائد بارش نے شہر میں نظام زندگی متاثر کیا۔افغانستان میں موسلا دھار بارشوں اور سیلابی ریلوں سے سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے۔افغان حکام کے مطابق بارشوں اور سیلابی ریلوں سے افغانستان کے 13 صوبے شدید متاثر ہوئے ہیں جب کہ سب سے زیادہ متاثرہ صوبے پروان ہوا۔ افغانستان کی قدرتی آفات کی وزارت کے مطابق حالیہ سیلاب سے پروان میں ہزاروں افراد متاثر ہوئے جب کہ کابل، پنجشیر،وردک، لوگر، پکتیا، پکتیکا، خوست، غزنی اور لغمان بھی سیلاب سے متاثر ہوئے۔
بنگلہ دیش میں سیلاب سے تباہی 200 جاں بحق، لاکھوں بے گھر،ایمرجنسی نافذکردی گئی،اطلاعات کے مطابق بنگلادیش میں سیلاب نے تباہی مچا دی جس سے پورے ملک کا پورا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ڈھاکہ سے حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ بنگلادیش میں سیلاب سے جہاں اب تک سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے اور ہزاروں مویشی پانی میں بہہ گئے وہیں سیکڑوں گھر بھی تباہ و برباد ہو گئے۔مون سون بارشوں کے سبب مختلف علاقوں میں مٹی کے تودے گرنے کے واقعات بھی پیش آئے، سڑکوں پر درختوں اور ہورڈنگز کے گرنے کے سبب بھی ہلاکتیں ہوئی جبکہ کرنٹ لگنے سے بھی متعدد افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔سیلاب کے باعث لاکھوں افراد بے گھر اور بنگلا دیش کا ایک تہائی حصہ متاثر ہوا، متعدد دریاؤں میں پانی کی سطح انتہائی بلند ہے،جس کی وجہ سے لوگوں کو بے گھر ہونے کے ساتھ ساتھ خوراک کی بھی شدید کمی کا سامنا ہے جبکہ انڈونیشیا کے چند علاقے بھی بری طرح متاثر ہوئے۔
کرونا وائرس کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات وقتی طور پر کم ہوئے اور اس وقفہ کو عارضی تصور گیا، کیونکہ دیکھا گیا تھا کہکرونا وبا میں کمی کے رجحان کے بعد ماحولیاتی آلودگی میں وقتی طور پر کمی واقع ہوئی تھی لیکن حالات بہتر ہوتے ہی کاربن میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ کرونا وائرس نے فی الوقت عالمی درجہ حرارت و ماحولیات میں ناقابل یقین تبدیلی بھی پیدا کی تھی اور اوزان کی تہہ (بلیک ہول) کے پھیلاؤ میں کمی واقع ہونا شروع ہوئی، تاہم اس اَمر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کرونا وائرس کو قابو پانے کے بعد ایک نئی تجارتی جنگ کا آغاز شروع ہوجائے گا، ترجیحات چاہے جتنی بھی تبدیل ہوجائیں، ماحولیاتی آلودگی میں تیزی سے اضافے کے رجحان کو قطعی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کرونا وبا کی وجہ سے ہوائی سفر، ٹرانسپورٹ، صنعتیں بند رہی، لیکن یہ مستقل نوعیت نہیں تھی، بلکہ وبا کے بعد جہاں معاشی تغیرات سامنے آئے تو تو ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا پوری دنیا کو درپیش ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے وابستہ مسائل کو، جن کی وجہ سے آگے چل کر کہیں زیادہ سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں، نظرانداز کرنا بہت بڑی بے وقوفی ہوگی۔کرونا وائرس کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچا۔عالمی بنیادوں پر ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے اقدامات کی ترجیحات تبدیل و توقف کا شکار ہوئیں۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے حکومتوں کو ماحولیاتی ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے کیونکہ موسموں کی تبدیلی کے باعث زرعی فصلوں کو جہاں نقصان پہنچ رہا ہے تو دوسری جانب کئی ممالک کو غذائی قلت کے خطرات کا سامنا بھی درپیش ہوگا۔ جنگلات کی کٹائی اور آگ کے پھیلاؤ نے اس اَمر کی ضرورت کو بڑھایا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پودے لگا کر مستقبل میں ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے۔ مون سون کی بارشوں میں اضافے کے باعث انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچتا ہے، جس سے ترقیاتی فنڈز کا مصرف نئے کاموں کے بجائے انفرااسٹرکچر کی بحالی بن جاتا ہے۔ نیز وبائی امراض اور بیماریوں میں اضافہ ترقی پزیر ممالک کے لئے مزید مسائل کا سبب بن جاتی ہے۔ کرونا وبا کے باعث ملکی معیشت کمزور ہوئی ہے اور کاروباری سرگرمیاں مفلوج ہونے کا تمام دباؤ غریب و متوسط طبقے پر زیادہ پڑا ہے۔بے روزگاری میں اضافے کی وجہ سے معاشرتی مسائل میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔غیر متوقع قدرتی آفات کی وجہ سے جہاں صنعتی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں تو دوسری جانب سیاحت کو بھی نقصان پہنچتا ہے،پاکستان میں اس وقت سیاحتی شعبے سے لگ بھگ نو لاکھ جب کہ جنوبی ایشیا میں ایک کروڑ 77 لاکھ افراد وابستہ ہیں۔ جب کہ سیاحتی شعبے کی مجموعی آمدنی اربوں ڈالرز ہے۔عالمی وبا کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سیاحت کے شعبے کو مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔ لاک ڈاؤن اور ذرائع آمدورفت معطل ہونے کی وجہ سے بیرون ملک اور اندون ملک بھی سیاحتی سرگرمیاں تقریباً معطل ہیں جس کے معیشت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ سیاحت میں کمی سے پاکستان میں مجموعی قومی پیداوار کو 3 ارب 64 کروڑ ڈالر، بھارت کی مجموعی قومی پیداوار میں 43 ارب 40 کروڑ ڈالر،بنگلہ دیش کی جی ڈی پی کو لگ بھگ 2 ارب ڈالرز، سری لنکا کی جی ڈی پی میں بھی تقریباً دو ارب ڈالرز،نیپال کی جی ڈی پی میں 46 کروڑ ڈالرز جب کہ مالدیپ کی جی ڈی پی میں 70 کروڑ ڈالر کمی کا خدشہ ظاہر کیا جاچکا ہے۔
مون سون کی بے وقت بارشوں کی وجہ سے پانی کے بڑے ریلوں کی وجہ یا سیلاب کی وجہ نشیبی علاقوں کی آبادیوں، زرعی املاک اور جنگلات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس صورتحال سے بچنے کے لئے حکومتوں کو طویل المعیاد منصوبہ بندی کرتے ہویت ایسی آباد کاریوں کو روکنے کی ضرورت ہے جو مجاز اداروں کی اجازت کے بغیر آباد ہو رہے ہیں۔ دریاؤں کے بہاؤ اور اضافی پانی کو روکنے کے لئے ڈیم بنانے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے، چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر سے پانی کے ذخائر میں اضافہ و بنجر زمینوں کو سیراب کرکے زرعی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ شہری علاقوں میں رہائشی علاقوں کو کمرشل علاقوں میں تبدیل کرنے سے قبل سیوریج سسٹم سمیت برساتی نالوں میں نکاسی آب کی گنجائش کو مد نظر رکھا جانا اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ حالیہ سیلابی نقصانات کی بنیادی وجہ آبادی کا بنا منصوبہ بندی کے بڑھنا، رہائشی علاقوں میں انفراسٹرکچر میں تبدیلی کئے بغیر کمرشل عمارتوں میں اضافے اور تجاوزات سمیت غیر قانونی آبادی کاری قرار دی جاتی ہیں۔
ماحولیات میں تبدیلی کے لئے درختوں کی کٹائی کے بجائے مزید درخت لگانے کے لئے منظم مہم کی ضرورت ہے جو صر ف پودے لگا کر بھول جانے کی روش کو ختم کرے اور عوام میں درختوں کی حفاظت اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے مُضر اثرات پر شعور اجاگر کیا جائے۔ ترقیاتی کاموں کے دوران شہروں سے ہزاروں درختوں کا کاٹے جانا ایک المیہ ہے، کسی بھی ترقیاتی کام کے دوران منصوبہ بندی میں درختوں کی حفاظت و گرین بیلٹ کی تعمیر کو ضروری قرار دیا جائے۔ میدانوں و پارکوں میں موسمیاتی پودے و درخت لگائیں جائیں جو قدرتی آفات میں آبادیوں و عوام کو موسمی تغیرات سے بچانے میں معاون ثابت ہوں۔پچھلے پچاس سال میں چین نے 22 ہزار ڈیم‘ امریکہ نے ساڑھے چھ ہزار ڈیم اور بھارت نے ساڑھے چار ہزار ڈیم بنائے ہیں جب کہ پاکستان میں پانی کی کمی کے باوجود بڑے ڈیموں کی تعمیر سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔مستقبل میں پاکستان کو پانی کی کمی کے باعث اپنی زرعی زمینوں کے علاوہ عوام کو بھی صاف پانی کی فراہمی کا بحران درپیش ہے۔ بارشوں سے ضائع ہونے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے قلیل المعیاد و طویل المدت منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہو کر نقصانات سے بچا جاسکتا ہے اور ملکی معیشت کو کئی دیرینہ مسائل سے نکالا جاسکتا ہے۔ ماحولیاتی چیلنجز سے مقابلہ کرنے کے لئے حکومت و عوام کو ایک صفحے پر آنا ہوگا۔ عوام میں ماحولیاتی تبدیلوں سے موسمیاتی تغیرات کے نقصانات سے بچاؤ کے لئے آگاہی فراہم کرنے کے لئے ہر سطح پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔