جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی کے چند علاقوں کی مقامی انتظامیہ نے ایسے خصوصی مراکز بنائے ہیں، جہاں قرنطینہ توڑنے والوں یا کووڈ انیس سے بچا کے لیے نافذ پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بند کیا جا سکتا ہے۔
شمالی جرمنی کے چھوٹے سے شہر نوئے منسٹر کے نواح میں ایک عمارت، جو نابالغوں کے حراستی مرکز کے طور پر استعمال ہونا تھی، اب کووڈ جیل بن چکی ہے۔ اس میں چھ کمرے ہیں۔ جو کوئی قوانین پر عمل نہیں کرتا یا قرنطینہ توڑتے پکڑا جاتا ہے، اسے مرکز میں مہمان بنایا جا سکتا ہے۔
جرمن ریاست شلیسوگ ہولسٹائن کی مقامی انتظامیہ کے رکن زونکے شلس کے بقول وہ افراد جن پر کووڈ انیس میں مبتلا ہونے کا شبہ ہو، ان کا تنہا رہنا وبا کے پھیلا کو محدود رکھنے کے لیے لازمی ہے۔ انہوں نے جنوری میں اس مرکز کے افتتاح کے موقع پر یہ بات کہی۔
یہ مرکز کہنے کو جیل ہے لیکن حقیقت ذرا مختلف ہے۔ یہاں قیام کرنے والوں کو ٹیلی وژن، لیپ ٹاپ، اسمارٹ فونز اور دیگر چیزیں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ ضرورت پڑنے پر نفسیاتی امداد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ تمام کمرے پرسکون بستروں سے آراستہ اور اتنے کشادہ ہیں کہ ان میں چہل قدمی کی بھی گنجائش ہے۔
بس ایک ہی چیز اس مرکز کو مختلف بناتی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں خلاف ورزیاں کرنے والوں کو جبرا اور ان کی مرضی کے خلاف رکھا جا سکتا ہے۔ چالیس کے قریب سابق پولیس افسران پر مشتمل محافظوں کی ایک ٹیم اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ‘قیدی مرکز کے قوانین پر عملدرآمد کریں۔
اس مرکز میں لوگوں کو کب بھیجا جا سکتا ہے؟ جب اور کوئی راستہ نہ بچے، تب ہی حکام مذکورہ فرد کو اس مرکز میں منتقل کر سکتے ہیں۔ یعنی اگر کووڈ انیس کا کوئی مریض اپنے گھر میں قرنطینہ کرنے سے کئی مرتبہ منع کر چکا ہو۔ ایسے شواہد بھی لازمی درکار ہوتے ہیں کہ مذکورہ شخص نے قرنطینہ کی خلاف ورزی کی ہو۔ ایسی صورت میں بھی پہلے پولیس مذکورہ شخص کے مکان کا دورہ کرے گی اور اس پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ ایسا ایک سے زائد مرتبہ ہونے کی صورت میں اسے اس مرکز منتقل کیا جا سکتا ہے۔
جرمنی میں کووڈ جیل کا خیال نیا نہیں ہے۔ گزشتہ سال مئی میں برلن کے شونے فیلڈ ایئر پورٹ پر چند کمروں کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ تاہم اس خیال پر جرمنی کی سولہ ریاستیں منقسم ہیں۔ اب تک ایسے زیادہ تر مراکز خالی پڑے ہیں۔