کیبل آپریٹر جو بد معاشیاں کر رہے ہیں انہیں غیر جمہوری لوگوں کی جو جمہوریت کے نام نہاد کھلاڑیوں کا ایک ٹولہ ہے کی مکمل آشیرواد حاصل ہے۔یہ وہ سیاسی کھلاڑی ہیں جنہیں جمہوریت راس نہیں آتی ہے۔اس میں جمہوریت کے کھلاڑیوں کے علاوہ جمہوریت سے خائف عناصر کی بھی بھر پور حمایت حاصل ہے۔ یہ لوگ اس ملک میںا قتدار پر شب خون مر وانے کی تگ و دو میں لگے پڑے ہیں۔ جس میں ان کا سب سے بڑا نشانہ جمہوریت کے بے باکاینرز اور چینلز ہیں۔جن چینلز کے گلے میں ایک مخصوص پٹہ پڑا ہے۔وہ بے باک لوگوں کو راستے سے ہٹانے اور اپنا جعلی سکہ جمانے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے بازی لیجانے کی کوششوں میں سر گرداں ہیں۔ا ن کا ساتھ دینے والوںمیں وہ لوگ شامل ہیں جنہیں جمہوریت ہمیشہ ہی سے ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے۔
بد قسمتی اس ملک کی یہ رہی ہے کہ اس ملک کو ہمیشہ جمہوریت کے نام پر بھی لوٹا گیا۔ مارشل لاز کا تو کہنا ہی کیا ہے کہ طاقت کے تمام سوتے انہی کی لونڈی باندی رہے ہیں۔آج ہر سرکاری اور غیر سرکاری چھوٹا بڑا ادارا اس ملک میں ایک مافیہ کا کردار ادا کر رہا ہے۔اور ان سب کے سوتے ایک ہی ممبے سے خارج ہوتے ہیں۔مذہب، سیاست ،تجات، معیشت ،صحافت،تعلیم غرض یہ کہ ہر شعبہ جہاںانہیں موقع ملتا ہے یہ اپنا ہاتھ دکھانے میں دیر نہیں کرتے ہیں۔
کیبل آپریٹرز کو حکومت اور میڈیا نے اس قدر سر چڑھا لیا ہے کہ یہ بد معاش عوام سے کیبل کی فیس وصول کر لینے کے باجود ان کے پسنددیدہ چینلز بند کر دیتے ہیںیا ایسے مقام پر لیجاتے ہیں جہاں سے ان کو عام ناظر کے لئے انتہائی مشکل امر ہے۔ کیا کوئی حکومت، کوئی عدالت ان کی من مانیوں کو روکنے کی جراء ت نہیں رکھتی ہے؟کیا عوام اپنے گاڑھے خون پسینے کی کمائی سے پس انداز کر کے ان کی علاقوں کے لحاظ سے350 سے 500 روپے ماہانہ فیس کی مد میں اس لئے ادا کرتے ہیں کہ یہ جب چاہیں کسی بھی معمولی معاملے کی آڑ لیکر ہمارے پسند دیدہ چینلز بند کر دیں؟؟؟حکومت کو اس ضمن میں فوری طور پر کاروائی کرنی چاہئے۔عوام کے گاڑھے پسینے پر پلنے والے یہ کیبل آپریٹر آج ملک میں مافیہ کا روپ دھار چکے ہیں۔
جنہیں کوئی لگام دینا شائد نہیں چاہتا ہے۔حکومت کو قانوں سازی کے ذریعے کیبل آپریٹر مافیہ کو پابند کرنا چاہئے کہ جس نمبر پر جو چینل سیٹ کیا جائے وہ اُس کی ریتنگ کے لحاظ سے سیٹ ہونا چاہئے۔جب ایک مرتبہ کسی چینل کو کوئی نمبرمنصفانہ طریقے پر دیدیا جائے تو بغیر حکومتی مرضی کے اور ناگذیر وجوہات کے اس کا فکس نمبر ہر گز تبدیل نہ کیا جائے ۔نمبروں کی فکسنگ بھی حکومتی ذمہ داری ہونی چاہئے جو بلا تعصب کے تمام چینلز کو ان کی ریٹنگ کے لحاظ سے الاٹ کئے جائیں اور پھر کسی کو انہیں چھیڑنے کی اجازت نہ دی جائے اور اگر کوئی کیبل آپریٹر اس میں من مانی کرتا چاہے تو اُس کا کیبل لائسنس منسوخ کر دیا جائے اور بھاری جرمانے لگائے جائیں۔ عوام کو اس مافیہ کے من مانے فیصلوں سے محفوظ رکھنا حکومت کااولین فرض ہے۔اس فرض سے اغماض برتنا حکومت کی نااہلی میں شمار کیا جائے گا۔
Journalism
حکومت کو ٹی وی پر چلنے والے پروگراموں کے لئے قانون کی شکل میں کوئی ضابطہ اخلاق مرتب کرنا ہوگا۔ اس کیلئے کچھ پیرا میٹر بنانے ہونگے۔ قانون کی لگائی گئی لکیر کو فلانگنے والوں پر بھی بھاری جرمانے رکھے جائیں اس سلسلے میں سختی کے ساتھ چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی مرتب کرنا ہوگا۔ ورنہ صحافت کے نام پربعض بدقماش اینکرز جس کی چاہیں گے پگڑیاں اچھالتے رہیں گے۔حکومت کو چاہئے کہ تمام ادروں کو اس بات کا سختی سے پابند کرے کہ وہ اپنی کا کردگی کے بارے میں سخت بات سننے سے نہ گبھرائیں۔بلکہ اپنے خلاف لگائے جانیولے الزامات کا جواب عوم کی عدالت میں میڈیا پر آکر دیں۔ان سخت سوالات پر میڈیا چینلز کو ہدف نہ بنائیں۔
آج ہر شخص اپنے مخالفین پرذاتی طور پر اسٹریٹ جسٹس اپنے معمولی سے گروپ کے ذریعے تھوپنا چاہتا ہے۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس معاملے میں بالکل صحیح کہا ہے کہ ملک میں اسٹریٹ جسٹس کا رواج نہیں ہوسکتا ، کیبل آپریٹرکو کسی چینل کے بند کرنے کا کوئی اختیا رٔنہیں ہے!!!انہوں نے جو رویہ اپنا رکھا ہے وہ غلط ہے۔وہ قانون کے مطابق کام کریں۔کسی کو یہ اختیار نہیں کہ خود ہی وکیل بن جائے اور منض کیبل آپریٹرز قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کیبل آپریٹرز کو اپنا کام کرنا چاہئے اور دوسروں کو اُن کا کام کرنے دینا چاہئے….ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ .وزیر اعظم نے میڈیا کے معاملات کا جائزہ لینے اور نظام وضع کرنے کے لئے کمیٹی بنا دی ہے۔جو فعال طریقے سے پیمرا کے قوانین پر عمل کرائے گی۔اور جو ادارہ پیمرا کے قوانین کی خلاف ورزی کرے گا اسکے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے گی اور سب سے اہم بات یہ کہی کہ ”پیمرا کی جانب سے آزادیِ صحافت کو نقصان پہنچانے والا کوئی قدم نہیں اٹھایا جانا چاہئے”مزید یہ بھی کہا کہ کیونکہ اسے ایسا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔
شخصیات کی اس مہم میں جارحانہ انداز میں شمولیت اور جیو کے ایسے پروگرام وں پر اعتراضات جیسے کم وبیش تمام چینلز پر بھی دکھائے جاتے رہے ہیں۔ اس سے اس شبہے کو تقویت ملتی ہے کہ یہ مہم سراسر بد نیتی پر مبنی ہے۔سڑکوں پر میڈیا کا کھیل کسی ادارے کے مفاد میں نہیں۔حومت کے واضح نقطہ نظر کے آجانے کے بعد بعض ایکٹرز نے مار شل لائی (جیو کی بندش کا)اعلان کر کے پورے پاکستان کو ورطہِ حیرت میں ڈالدیا ہے۔
ایک ڈالرز کی پیداوار ،سیاسی لیڈرکی جانب سے لگائے جانے والے الزامات پر جیو وجنگ کی انتظامیہ خود عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر چکی ہے۔اس کے بعد سڑکوں پر ہنگامہ آرائی اور کیبل آپریٹرز کی جانب سے جیو کی بندش کا کوئی جواز نہیں۔اس مہم کو جاری رکھنے والے دراصل یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ ان قوتوں کی آلہِ کار ہیں جو ملک میں آزادیِ صحافت اور آزادیِ اظہارِ رائے کو ختم کر نے کے خواہشمند ہیں۔انصار عباسی اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ جیو ٹی وی کے معاملے پر حکومت اور ملٹری اسٹابلشمنٹ منقسم ہیں حکومت یہ نہیں چاہتی ہے کہ جیو کی نشریات بند ہو جائیں جبکہ ملٹری اسٹابلشمنٹ چاہتی ہے۔
ہر حال میںجیو چینل بند ہو جائے (اور قوم نے طاقت کا مظاہرہ دیکھ بھی لیا ہے)ہم سمجھتے ہیں کہ یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ملک کا اتنا بڑا ادرہ ایک معمولی اسٹیک ہولڈر سے خوامخواہ کی ٹسل میں اپنا وقار دائو پر لگا رہا ہے ۔اس کے پاس اور بھی جائز راستے ہیں کسی معاملے کو سلجھانے کے!تاہم افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کا ایک نہایت ہی پسند دیدہ میڈیپر قدغن لگا کر بند کرا دیا گیا ہے۔اس فعلِ قبیح میں وہ تمام چھوٹے چھوٹے گروپ بھی شامل ہیں جن کی اس معاشرے میں کوئی بڑی آواز نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی سیاسی یا سماجی حیثیت ہے۔
کیا عوام کا پیسہ حرام کا ہے کہ کیبل کی فیس ادا کرنے کے باوجود بھی وہ اپنے پسند دیدہ چینل دیکھنے سے محروم کر دیئے گئے ہیں۔ہاتھی اور بکرے کی لڑائی میں عوام کو ایندھن بنا کر استعمال کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔حکومت آئی ایس آئی اور جیو کے درمیان مسئلہ حل کرانا چاہتی ہے جس میں پاک فوج اور آئی ایس آئی کاوقار بھی بھی بحال رہے اور چینل بھی بند نہ ہو۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے۔
آئی ایس آئی چاہتی ہے کہ اگر چینل بند نہیں ہوتا تو کم از کم اس کی نشریات ہی معطل کردی جائیں۔در حقیقت حکومت اس لئے چینل کی بندش نہیں چاہتی ہے کیونکہ آنیوالی حکومتوں کے لئے یہ بات ایک مثال بن جائے گی کہ وہ کسی بھی شکایت پر کوئی بھی چینل بند کردے۔ جیو کی بندش کے بعد کے حالات سے سب واقف ہونے کے باوجوداپنے اپنے ایجنڈے کے تحت اپنی اپنی ضدوں پر اڑے ہوے ہیںجو ملک میں جمہوریت کے راستے کی رکاوٹوں کا سبب بنادیا چاہتی ہیں۔
پیمرا کے چند ناعاقبت اندیش لوگوں کے اس کھیل کا بڑا کردار بنے ہوے ہیں یہ بھی سب کے علم میں ہے کہ ان سب اور ان جیسے دیگر افراد کی ڈوریاں کہاں سے جُنش پذیر ہیں؟پیمرا کے تین نا قابت اندیشوں نے زمینی خدائی حکم جاری کرتے ہوے جیو کی بندش اور اس کے دفاتر پر غیر قانونی طور پر تالے ڈالنے کا حکمِ شاہی جار ی کرتے ہوے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ان سے زیادہ طاقتور اس ملک میں اس وقت کوئی نہیں ہے۔کیونکہ انہیں طاقتور لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔
جبکہ پیمرا نے ان تین ارکان کے فیصلے کو غیرقانونی قرار دیتے ہوے کہا ہے کہ پیمرا کا اجلاس صرف چیئر مین یا پیمرا کے نصف ارکان طلب کر سکتے ہیں۔5 پرائیویٹ ممبرز کے اجلاس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔اس معاملے میں وزارت قانون کی رائے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔یہ فیصلہ 9 مئی کے پیمرا اتھارٹی کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔جس میں جیو کے خلاف درخواست کو وزارت قانون کو بھجوا دیا گیا تھا اور وزارت قانون کے فیصلے کی آمد سے قبل اس فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
Shabbir Khurshid
پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com