گھریلو خواتین کی ایک اہم ایکٹیوٹی موسم تبدیل ہوتے ہی پچھلے موسم کے تمام اہل خانہ کے کپڑوں کو سمیٹنا اور حالیہ موسم کی مناسبت سے سمیٹے ہوئے کپڑوں کو از سر نو دھلا کر انہیں پریس کروا کر رکھنا یہی مجھے بھی کرنا تھا خاتون آئیں اور دھلوانے کے بعد جب پریس کرنے کا مرحلہ آیا تو بے ساختہ منہ سے نکلا جیو نا اہلو سبحان اللہ کپڑوں کا انبار تھا اور مکمل سوٹ کسی طرح سے بن نہیں پا رہا تھا ان غیر متوازن حلیے والے لوگوں کے دماغ بھی ان کی طرح بکھرے ہوئے بے ترتیب ہیں جو آج ہمیں ہمارے نفیس ملبوسات سے ہٹا کر “”بھان وتی کے کنبے”” کی طرح لباس کے نام پر دھجیوں میں الجھا گئے سکن شرٹ ہے تو پنک شلوار ہے اور گرین دوپٹہ جی ہاں یہ ہمارے مایہ ناز غیر ملکی اعلیٰ ترین لوگ ہیں جنہیں فیشن ڈیزائنر کہا گیا اور “” ڈیزائینر سوٹ”” کے نام پر اپنا سال ہا سال کا رکا ہوا اسٹاک جس مہارت سے نکالا ہے سبحان اللہ بچی ہوئی کترنیں پیوند لگا کر جدت کی صورت بیچ کر خود ارب پتی بن گئے اور اس سادہ لوح قوم اور فیشن کی ماری خواتین کو “”فیشن کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر ” کچھ الگ ہی کلچر ملک میں لے آئے دل چاہ رہا تھا کہ ان میں سے سامنے ہو تو انہیں بے نقط سناؤں اس ملبوساتی دہشت گردی پر جس نے سوٹ مکمل کرتے کرتے دن گزار دیا اچھا خاصا پیارا معاشرہ تھا جس میں باوقار دیدہ زیب نفیس اور اعلیٰ معیاری ملبوسات بازار سے ملتے تھے کہیں کسی بھی ترتیب سے انہیں سمیٹیں تو دوبارہ کھولنے پر کبھی ایسی پریشانی نہیں ہوئی تھی جیسی اس بار ہوئی قصور کس کا ہے؟ ان بے دین بگڑے ہوئے غیر ملکی طالبعلموں کا جنہیں دین سے معاشرے سے کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں؟ یا پھر ہم سب کا قصور ہے جو بے تحاشہ پیسہ مل جانے پر اس کا استعمال بغیر سوچے سمجھے کرتے ہوئے جو بازار می چمکتا ہے اسے خرید کر با رعب اور با عزت کہلانا چاہتے ہیں؟ ہر اوٹ پٹانگ چیز کو بطور فیشن اور معیار سمجھ کر اپناتے چلے جاتے ہیں؟ نقصان فائدہ جانچے بغیر اس کو اندھا دھند اپنا کر اندھی تقلید کرنے والے جانتے ہیں کون ہوتے ہیں؟ وہ لوگ جن کے پاس علم نہیں شعور نہیں عقل نہیں اپنے درجات کا اپنی ذات کا رتبہ نہیں پتہ؟
بھارتی اداکار شاہ رخ خان کی کہی ہوئی بات یاد آئی آج کی فلمیں میوزک مقصدیت کے بغیر صرف دولت کا حصول ہے لوگوں کا معیار مر چکا ہے اس معیار کو زندہ کرنے کیلئے میں نے اپنی فلم اوم شانتی اوم میں اوٹ پٹانگ الفاظ شاعروں سے کہ کر لکھوائے کہ لوگ سنیں گے تو مجھے کوسیں گے سوال اٹھائیں گے اور اس طرح سے میں انہیں جواب دوں گا کہ تمہاری مری ہوئی حس کو زندہ کرنا چاہتا تھا یہ سب کر کے مگر ہوا کیا ؟ شہ رخ خان افسردہ تھا وہ بے معنی بت تکی شاعری والے نغمے سپر ہٹ ہو گئے یہی آج ہمارا المیہ ہے اصل لوگ اور اصل محنتی سوچ صرف دولت اور شہرت راتوں رات مل جانے سے مار دی گئی ہر سطحی سوچ رکھنے والا انسان خواہ وہ عورت ہے یا مرد اس کے پاس کوئی گفتگو کیلئے موضوع نہیں ہے صرف ڈیزائنر سوٹ میک اپ پرس اور جوتے اس دوڑ میں نقصان یہ ہوا کہ طاقتور مومن جس کے سامنے لرزتے تھے شبستان وجود آج نا پید ہے عورت جس کا مقام ایک قدم پیچھے مرد کی تقلید میں وہ آج دنیا میں مردوں کے شانہ بشانہ نہیں اس کو ہر سطح پر پیچھے دھکیلتی ہوئی سب سے آگے نظر آتی ہے یہ دنیا کی کامیابی ہر گز نہیں تباہی ہے غیر فطری نظام زندگی دراصل دولت کے حۤصول کیلئے قدرت سے ٹکراؤ ہے وہ لوگ جو قرآن کو اسلام کو نہیں جانتے آج ہمارے سروں پر مسلط ہیں اور ہم ان نا اہلوں کے پیچھے بے دام غلام بنے کھڑے ہیں؟ خُدارا جاگ کر اندازہ کریں کہ جو راستے کی دھول تھے وہ آندھی کا بگولہ بنے ہمیں اڑائے پھر رہے ہیں اپنی ذات کی سادگی کو واپس لے کر آئیں ہماری روایتی قناعت ان ملبوسات کے دہشتگردوں کی دہشت گردی کو ختم کر سکتی ہے مسترد کر دیں ان بے ہُنر لوگوں کو جو خود اپنے اصل سے واقف نہیں ہماری رہنمائی کیا کریں گے؟ جھوٹی اہلیت سے معاشرے کو غیر اسلامی ملبوسات کی صورت تباہی دے رہے ہیں ہم انتہائی جامع اور مستند نظام معاشرت رکھتے ہیں لباس بھی وہی قابل قبول ہونا چاہیے جو ہماری پہچان بنے ہماری دشمن ملک کی مشہوری ان زنخوں سے ہر گز ہر گز قابل قبول نہیں مستحکم معاشرت اور ملت صرف وہی ہے جو ہمارے اسلاف سے ہم تک پہنچی جس کی بنیاد پر الگ تشخص کی وجہ سے پاکستان بنا ان جیسے بے حمیت لوگوں نے اس نظریہ کو بھی دھندلا کر کے صرف پیسہ کما لیا لڑکیوں کو ترغیب دے کر پیسوں کا جلوہ دکھا کر انہیں اس طرف متوجہ کیا جا رہا ہے وہ تباہی ہے عام معاشی بہتری میں اضافہ فیشن شو اور شو بز کی صورت کیا جا رہا ہے اس سے یہی انداذہ ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں صرف روزی کمانے اور اس سے بڑھ کر دولت کمانے کا واحد راستہ یہی ہے اس میں موجود بے لوگ عورتوں کو مردوں کا ٹخنوں سے اونچا لباس پہنا کر اور مردوں سے لال پیازی ہرے جامنی شلوار قمیض اور ٹائٹ زنانہ انداز میں جدید فیشن کے انداز متعارف کروانے لگے جب ہمارے پاس آباء و اجداد کا دیا ہوا بہترین مہذب باوقار لباس موجود ہے تو پھر بغیر سوچے سمجھے مرد نزاکت کیسے دکھانے لگے؟ خواتین اسلامی شریعت کا مذاق اڑاتی کیسے دکھائی دے رہی ہیں؟ یہ رنگ یہ انداز بھارتی ہے جن کے پاس کوئی الہامی کتاب نہیں ہم نے ان بے دینوں کو سیدھا راستہ دکھانا تھا مردوں کیلئے ریشمی لباس نا پسندیدہ قرار دیا گیا ہے
“”آپ ﷺ کو حضرت عمر ﷺ نے ایک ریشمی چوغہ بھیجا کہ آپ اسےخرید کر بیرونی وفود کے سامنے زیب تن کریں آپﷺنے فرمایا اسے وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا””
آج ہمارے بھائی بیٹے فخر سے فیشن کے نام پر ریشمی لباس زیب تن کرتے ہیں یہ ذہنی تخریب کار دہشت گرد جو ہماری نسلوں کو گمراہ کر کے بے دین کر رہے ہیں اور اسلام کو فرسودہ دقیانوسی کہ کر اس کا مذاق اڑاتے ہیں یہ لوگ جو حب الوطن نہیں”” حُّب نبی”” کا ان کو کیا شعور؟ ایسے گمراہ لوگوں کے پیچھے ہم اندھا دھند چل کر لوگوں میں اپنی شان بڑھا رہے ہیں؟ علم سے محروم انسان کو ماضی میں جاہل کہا جاتا تھا آج یہ دینی جاہل دنیا کے سب سے بڑے گیم چینجر بن گئے صرف اس لئے کہ سامنے ہم جیسے کمزور نفس کے غلام ہیں واپس چلو اگر دنیا میں قائم رہنا چاہتے ہو اپنے شعور کو قرآن مجید سے بیدار کرو اپنی عظمت کو سمجھو کچھ جاہلوں کے پیچھے اندھا دھند چلنا ہماری شان نہی جب ہم نے مشکلات چھوڑ کر آسانیاں زندگی میں داخل کیں تو دنیا نے آسانی سے ہمیں مٹانا شروع کر دیا واپس آئیے اپنے شاندار قرآن مجید کو کھول کر اپنی گمشدہ شان تلاش کیجیۓ اسی میں ہی دوام ہے بقاء ہے اس انسان کو پھرسے دنیا کو تسخیر کرنے والا مومن بنا دیں اپنے رول ماڈل پھر سے پڑہیں اور عروج کی طرف اڑان بھریں ذرا سوچیں کل تک اسلامی معاشرہ ضروریات خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ہُنر جانتا تھا اور دنیا کا “”فاتح”” تھا وہ کل کا طاقتور شاہین صفت مومن آج سطحی سوچ کا شکار ہو کر “”کرگس “” بنا دیا گیا غور کریں اور اپنی عظمت رفتہ کو پہچانیں ایسا تب ہوگا جب ہم سب آسانیاں چھوڑ کر محنت کے ساتھ دین پر عمل پیرا ہوں گے تمام بے مقصد غیر شرعی رواج زندگی سے نکال باہر کریں آج ہر شعبہ حیات میں ہمارے رہنما نا اہل لوگ ہیں یہی لوگ مسلط رہے تو تبدیلی ناممکن ہے پھر یہی پکار ہوگی کہ جیو نا اہلو