لاہور (جیوڈیسک) پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پسند کی شادی کرنے پر قتل ہونے والی خاتون کے شوہر نے کہا کہ واقعے کے وقت پولیس کھڑی تھی لیکن انھوں نے حملہ آوروں کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے باہر منگل کو 30 سالہ فرزانہ کو اس کے گھر والوں نے پسند کی شادی کرنے پر اینٹوں کے وار کر کے قتل کر دیا تھا۔ فرزانہ کے شوہر محمد اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ حملے کے وقت ’ہم مدد کے لیے چلاتے رہے لیکن کسی نہ ہماری نہیں سنی۔
انھوں نے کہا کہ ’میرے ایک رشتہ دار نے پولیس کی توجہ اپنی طرف مبزول کرانے کے لیے اپنے کپڑے اتار لیے لیکن انھوں نے حملے کو روکنے کے لیے کوئی مداخلت نہیں کی۔‘ محمد اقبال نے پولیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’فرزانہ کو قتل ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے لیکن انھوں نے اسے روکنے کے لیےکچھ نہیں کیا۔‘
انھوں نے پولیس کی طرف سے فرزانہ پر حملے کو نہ روکنے کے رویے کو ’شرمناک‘ اور ’غیر انسانی‘ قرار دیا۔ نامہ نگاروں کے کہنا ہے کہ پاکستان میں سالانہ بیسیوں خواتین کو ’غیرت کے نام پر قتل‘ کیا جاتا ہے۔ اس واقعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کی سربراہ ناوی پیلے نے کہا کہ اس واقعے کا سن کر ’شدید دھچکا‘ لگا اور انھوں نے پاکستانی حکومت پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کے حوالے سے ’جلد اور سخت اقدامات کرے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ میں غیرت کے نام پر قتل کا فقرہ استعمال نہیں کرنا چاہتی۔ اس طریقے سے کسی خاتون قتل کرنے میں کوئی عزت نہیں ہے۔‘ فرزانہ کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ سے تھا اور اس نے کچھ عرصہ پہلے گھر سے بھاگ کر محمد اقبال سے پسند کی شادی کی تھی۔
وہ اپنے میاں اقبال کے ساتھ منگل کی صبح لاہور ہائی کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے لیے آ رہی تھی کہ ججز گیٹ کے پاس پہلے سے ہی ان کے بھائی والد اور ان کا ماموں زاد جو کہ فرزانہ کا سابقہ منگیتر بھی تھا گھات لگائے بیٹھے تھے۔