جو بادل آج گہرا ہے تیری یادوں کا موسم ہے ہوا کا لہجہ بدلا ہے تیری یادوں کا موسم کا ہے جاں پہ وا ر کرتی ہے دسمبر کی گھنی سردی فضا میں سوگ پھیلا ہے تیری یادوں کا موسم ہے ابھی ہی پر پھیلائے شام بھی لوٹی ہے اپنے گھر سورج تھک کے ڈو با ہے تیری یادوں کا موسم ہے یادوں کا جہا ں لے کر اندھیری رات آپہنچی چا ند کا نور میلا ہے تیری یادوں کا موسم ہے ستاروں نے بھی پوچھا ہے تیرا احوال دھیرے سے انھیں بھی کہہ کے بھیجا ہے تیری یادوں کا موسم ہے بڑی ہی مدھر سی آواز میں گونجی ہے با نسر یا یہ کس نے تار چھیڑا ہے تیری یادوں کا موسم ہے ہر اک رات تنہائی کی ساگر جان لیوا ہے جگر میں زہر پھیلا ہے تیری یادوں کا موسم ہے