تحریر : شاہ بانو میر یہ کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کسی میگزین میں ایک چھوٹؤی سی کہانی پڑھی ـ میگزین والوں نے تو شائد اسے مزاحیہ سمجھ کر لگایا تھا ـ لیکن میرے دل میں جیسے پھانس سی چبھ گئی ـ اس وقت اس کرب کو اتنی شدت سے محسوس نہیں کیا تھا جتنی اذیت آج شعور قرآن ملنے کے بعد محسوس کر رہی ہوں ـ لکھا تھا کہیں کسی یورپی ملک میں ایک بچوں نے ٹیبلو پیش کیا ـ جس میں مختلف مذاہب کے خُدا پیش کئے گئے ـ سب سے پہلے یہودیوں کا آیا خوب لدا پھندا زیورات سے اور قیمتی لباس سے اس کے بعد کرسچنز کا آیا بہت قیمتی سوٹ پہنے قیمتی سگار انگلیوں میں تھامے اس کے آتے ہی اسٹیج سے خوشبوؤں کے ایسے بھبھکے اٹھے کہ پورے ہال کو معطر کر گئے ـ خوب تالیاں بجیں سب بہت متاثر ہوئے کہ ان کا گاڈ اس قدر شاندار انداز میں آیا ہے ـ اس کے بعد ہندوؤں کا بھگوان آیا تو خوب زیورات سے سجایا گیا ساتھ ہی دیوی تھی جو زیورات کے ساتھ ساتھ خوبصورت قیمتی دیدہ زیب ساڑھی میں بالوں کے جوڑے کے ساتھ انتہائی سحر انگیز انداز میں دکھائی گئیـ
پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور تالیوں کی گونج نے بتایا کہ کتنا پسند کیا گیا ہےـ سب سے آخر میں مسلمانوں کا خُدا دکھایا جاتا ہے ـ مگر یہ کیا؟ پھٹے ہوا بوسیدہ لباس میں دکھائی دینے والا ہال میں موجود لوگوں کو مایوس کر گیا ـ کسی نے آواز دی کہ آخر یہ کیا ؟ باقی سب مذاہب کے خُدا اتنے سجے سجائے اور مسلمانوں کا اتنا خستہ حال کیوں؟ اس نے جواب دیا ان کے رب وہ پہن کر آئے جو وہ اسے دیتے ہیں میں وہ پہن کر آیا جو مجھے دیا جاتا ہےـ
یہ ایک یورپی سوچ ہوگی یا کوئی اسکول کی ایکٹویٹی کہ تمام مذاہب کے خُدا کیسے ہوتے ہیں ـ جن سے بچوں کو روشناس کروایا گیاـ ہمارے مذہب میں تو تصویر یا شبیہہ کی اجازت ہی نہیں کہاں ربّ کو وجود کی صورت دکھایا جا سکےـ مگر یہ یورپ ہے یہ سب کرتے ہیں ـ نکتہ یہ نہیں کہ ایک اسلامی نظریے سے ہٹ کر کوئی فعل کیا گیا ـ یورپ امریکہ میں دن رات آپ کو بہت کچھ برداشت کر کے خود کو پرسکون رکھ کر رہنا پڑتا ـ اس کو پڑھ کر آج قرآن پاک کا ترجمہ تفسیر جو بتاتا ہے وہ تلخ سچ یہ ہے
ALLAH
آج ہم اللہ کے نام پر کیا دیتے ہیں ؟ ہرقسم کی ٹوٹی پھوٹی چیز بوسیدہ لباس ماسی کو وہ اترن جو پہنتے ہوئے بھی وہ گھبرائے اور دیتے وقت اگر کوئی اچھی لیس یا بٹن یا کوئی اور سجاوٹ ہے تو وہ ہم اتارنا نہیں بھولتے ـ یہی حال مساجد کا ہے یہی حال دیندار لوگوں کی خدمت کا ہے دنیا جہاں کے اخراجات ہم کریں گے لیکن قاری صاحب کے پیسے دیتے ہم دس بار ان کے بارے میں اسلامی لحاظ سے سوچیں گے؟ کہ آخر یہ مفت کیوں نہیں پڑہاتے ـ دنیا ہمیں بھاری بھرکم اخراجات کے ساتھ اور دین ہمیشہ کم قیمت اور سستا چاہیے ـ ہم نے مساجد میں وہ برتن بھیجنے ہیں جن کا کوئی کپ ٹوٹ گیا یا پرچ توڑ دی بچوں نےـ گھر میں کسی کے چار پانچ بچے ہیں تو جو بچہ غبّی کچھ سست سا ہوگا اسکو کہا جائے گا کہ اس کو حافظ قرآن بنا دوـ
یہ سفاکانہ اور انتہائی برا سلوک ہم کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ مسلمان پوری دنیا میں خوار ہو رہے ہیں ـ سب سے زیادہ مہاجرین مسلمان ہیں ـ آج بطورِ مسلمان جو بہت امیر ہیں وہ امت کی غربت کا احساس نہیں کرتے ـ آج اسلام غریب ہے اور امہ امیر ہے ـ زکوة و صدقات کی مد اسی فطرانہ اسی لئے اسلام میں متعارف کروائے گئے کہ زندگی اور مختلف اہم تہواروں پر خاص کے ساتھ عام اور غریب لوگ بھی سہولت محسوس کر سکیں ـ مگر افسوس کہ ہم نے آج ماضی کے سخی اور فراخدل حاتم طائی کو بھلا کر دین کی بجائے دنیا اور اپنے مقاصد اور کامیابیوں کیلئے اخراجات کو اتنا بڑھا لیا کہ دین کو فراموش کر کے اس کو عسرت زدہ کر دیاـ
مساجد اور دیگر اسلامی مراکز میں اگر آپ غور کریں تو آپ کو ڈبہ کھولنے پر کھنکھناتے سکوں کے انبار ملیں گے ـ جو جیب میں باقی بچی کھچی ریزگاری رہتی وہ ہم احسان کرتے کبھی صدقہ و خیرات کے نام پر کبھی اللہ واسطے وہاں ڈال دیتے ـ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ تو کسی کا احسان نہیں رکھتاـ وہ تو ہمارے ہر پیسے کو دوگنا کر کے لوٹاتا ہے ـ لیکن توکل کون کرے؟ سارا سال کما کما کر ہم اپنے زیورات کیلیۓ بھاری رقوم اکٹھی کرتے پاکستان جانا ہے تو عزیز رشتے داروں کے سامنے اپنی ذات کو بہترین ثابت کرنے کیلیۓ ہر طرح کے کیل کانٹے سے لیس ہو کر جاتے ـ لیکن بہترین اعلیٰ رہائشی عمارت بہترین خوراک بچوں کیلئے اعلیٰ سکول لاجواب گاڑی ـ اپنی ذات اور خاندان کی بڑائی حد سے زیادہ کرتے وقت ہم نہیں سوچتے کہ یہ مال تو اللہ کا عطا کردہ ہے تو اس کی مخلوق کو بھی حصّہ دوں تو اللہ راضی ہوگاـ
Praying
مال اور اولاد کا فتنہ بہت خطرناک فتنہ ہے ـ جب ہم سفر پے جاتے ہیں تو بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند روپے بطورِ صدقہ نکال دیتے ہیں ـ خُدارا خود کو عام سطح پر لائیے تا کہ دین کی توقیر بڑھے دنیا میں ـ آپ کا انفرادی پیسہ بیکار ہے اگر بطورِ مسلمان آپ کا مذہب ہر جگہہ حقارت سے اور رحم کی نگاہ سے اس لئے دیکھا جاتا ہے کہ اس کی کسمپرسی کسی صورت ختم نہیں ہو رہی ـ اسلام کا مطالعہ خالی ذہن اور خالی دل سے کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے اکابرین کیسے اپنے مال و متاع بغیر اگلے وقت کی فکر کئے آپﷺ کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے تھے ـ جبھی تو شان سے دشمنوں کے خلاف معرکے فتح کرتے تھے ـ آج ہم نے دین کو اکیلا چھوڑ کر اس کو مفلوک الحال کر دیا اور خود ہم ریشم و اطلس و حریر کے ملبوسات بھی زیب تن کر لیں تو بھی کوئی مقام کوئی عزت نہیں دنیا میں یونہی زمانہ ہم پر ہنسے گا اور حقارت سے دیکھے گا جیسے اس شو میں لوگوں نے تعجب سے دیکھاـ
بینک ہمارے نوٹوں کے ڈھیروں سے خاموش ساکت آواز نہ نکالیں اور ہماری مساجد ہمارے دینی مراکز ہمارے غیر اسلامی رویّے کے سبب سکوں کی کھنکھناہٹ سے ہاتھ ہلانے پر بھی شور مچاتے رہیں گے ـ جب تک مساجد کے یہ ڈبے جو دین اسلام کے فروغ اور اس کے پھیلاؤ کیلیۓ کئی مد میں استعمال کئے جاتے ہیں ان کے اندر باوقار خاموشی جو کاغذی رقوم کی صورت ہو سکتی ہے وہ نہیں ہوگی ـ یہ ڈّبے اگر کھنکتے رہیں گے تو یقین مانئے ہم اور دین بھی یونہی بے وزن ہو کر صرف شور مچاتے دکھائی دیں گے ـ اللہ پاک اس رمضان میں ہمیں شعور عطا فرمائے کہ اپنی ذات اپنے بچوں خاندان سے بالاتر ہو کر بطورِ امتّی اپنے فرض کو سمجھتے ہوئے بہترین انداز میں اپنے دین کیلیۓ کھلے دل اور بڑے ہاتھ سے خیرات و صدقات دینے والا بنائےـ
تاکہ ضرورتمندوں کی ضرورتیں کم ہوں وہ فعال ہوں اور اسلام کو ہم مستحکم بارعب دین کی صورت دیگر ادیان کے مقابلے پر لا کر اپنی فوقیت ثابت کر کے اسلام کو بلند کریں اور روزِ آخرت اللہ کے ہاں اس کے عوض اربوں کھربوں گُنا زیادہ اجر پا کر وہاں یہ افسوس کریں ـ کہ کاش مجھے احساس ہوتا کہ اتنا شاندار اجر تھا تو میں اپنے لیۓکچھ بھی نہ رکھتی ـ آئیے اس کھلے ہاتھ صدقہ و خیرات نکال کر رمضان میں اسلام کو باوقار کریں ـ جس دن ڈبوں کا شور ہم نے ختم کر دیا وہی دن ہوگا اسلام کے عروج کا ـ انشاءاللہ