نجانے کب ہو گی وہ سحر؟

Lahore Fire

Lahore Fire

تحریر : شاہ بانو میر
سانحہ پشاور سانحہ کراچی اب سانحہ لاہور غموں کا سلسلہ وار کوئی ایسا طویل دورانیہ چل رہا ہے کہ جس کا شمار اب کیا نہیں جاتا وہی روتے سسکتے بِلکتے چہرے غمزدہ نڈھال درد سے چور چور افسردہ پریشان حال لوگ لباس کا فرق زبان کا فرق بتاتا ہے کہ یہ درد کا مارا پنجاب سے ہے یا سرحد سے یا بلوچستان سے یا سندھ سے مگر آنسوؤں کا ذائقہ ایک ہی ہے ـ لہو کا رنگ جس کے بہنے سے یہ آنکھیں بہہ رہی وہ بھی ایک ہی،ہے معرفت بھی ایک کبھی موت دہشت گردی کے ضِمن میں لکھی جاتی تو کبھی آسمانی آفت کی صورت اور اگر وہاں سے بد نصیبوں کو جائے امان مل جائے تو حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی کا پول کھولتے ان اداروں کی تاخیر موت کا بے رحمانہ رخ دکھا کر 6 بچوں کو زندہ جلا کر والدین کو زندہ درگور کر دیتی ـ

لاہور کے ایک علاقے میں فائر برگیڈ کی گاڑیاں خراب ہونے کے باعث پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے اتنی تاخیر سے پہنچیں کہ جب ان کی ضرورت ختم ہو چکی تھی ـ6 بچوں کا بھرا پُرا کنبہ موت کی نیند سو کر والدین کو زندہ درگور کر چکا ماں کے سامنے بچہ سسک سسک کر تڑپ تڑپ کر چیخ چیخ کر جان دے وہ ماں کیا زندہ رہ پائے گی؟ اگر یہی آگ ڈیفنس میں لگی ہوتی تو آپ دیکھتے سب کچھ وقت پر ہوتا اس ملک میں تقسیم کا سلسلہ انسان کو انسانوں کے منصب سے نیچے گرا دیتا دولت معیار بنا کر ان کو انسان اور باقی ماندہ کو حشرات الارض کے درجے سے اوپر کوئی نہیں سمجھتا ـ

ہر روز کوئی ایسی واردات کوئی ایسی المناک کہانی کوئی روح فرسا داستان یہی ہے آج پاکستان کا عنوان دکھوں کا لامتناہی سمندر ہے جو عبور ہونے کا نام نہیں لے رہا ـ درد کا خشک جلتا ہوا صحرا ہے جو آبلہ پا کر چکا اور طویل ہے ـ کیسے حل ہوں گے یہ روز بروز بڑہتے ہوئے مسائل پانی کی قلت موجودہ دور میں شرم،ناک فعل جس ملک کے حکمران بچے کی پیدائش امریکہ جا کر کرواتے کہ وہاں مستقبل میں اسکی تعلیمی سرگرمیاں اس کو تابناک مستقبل دیں وہ حکمران پیدا ہونے سے پہلے اپنے بچے کی فکر اس قدر کرتے اور زمین پر بکھرے کروڑوں زندہ لوگ ان سے جُڑے مسائل پر وہ 5 سالہ جامع منصوبہ نہ بنا سکیں؟ جن سے ان احمقوں کو جو انہیں چُن کر لاتے ہیں

Pakistan

Pakistan

کم سے کم انہیں پانی خوراک تعلیم علاج معالجہ کمتر درجہ پر ہی مہیا کر دیںـ بھارتی سیاستدانوں کا طرز زندگی اور طرزِ سیاست آج پاکستان کیلیۓ قابل تقلید ہے ـ جمہوریت کا مضبوط ہونا ہر بڑے چھوٹۓ کے لئے قانون کا مساوی ہونا دکھا رہا کہ اصل نظام کی طاقت یہ ہوتی ہے ـ وہ سادگی اپنا کر اپنا کام کر کے اپنے ملک کو آگے لے جا کر دکھا رہے ـ یہاں ابھی تک کھاجے ملبوسات گھڑیاں گاڑیاں محلات اور نئے بال لگوانے اور ان کی تزئین و آرائش سے ہی فرصت نہیں مل رہی ٬ سچا درد اس قوم کا جس دن دل میں اتر گیا تو ظاہری چکاچوند کی بجائے حقیقی خادم اعلیٰ بن کر اللہ کے حضور اپنی پکڑ سے بچنے کی فکر ان کو سادگی اپنانے پر مجبور کر دے گی ـ

ابھی تو پارلر سے تیار ہو کر فیشل کروا کر فل میک اپ کروا کر ہم ایسی خواتین کو دیکھتے جو سانحات پر تعزیت کرتیں نہ خبریں لگانے والے اللہ کا قہر سوچتے اور نہ نمائشی بیان دے کر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینے والی ہستی اللہ کے انصاف سے ڈرتیں سچا احساس سچی دعا جب تک اس ملک کو نہیں ملنی یہاں ایسے قہر ٹوٹتے رہنے کیونکہ ہمارے اعمال نمائش ہیں قبولیت والی تاثیر آئے کہاں سے؟ نجانے کب ہو گی وہ سحر جو نمودار ہوگی تو اللہ اکبر کی صداؤں کے ساتھ الحمد للہ کی مسرت بھری سرگوشیاں کانوں میں شادمانی کا سامان بہم پہنچائیں گی ـ

جب کوئی دلخراش خبر سننے کی بجائے قرآن کا سنت کا نفاذ اور حقوق العباد سے حقوق اللہ کا بہترین تعین کر کے ہر کوئی ذمہ داریاں پوری کرنے کیلیۓ کمربستہ ہوگا نہ کہ صرف پانے کی تگ و دو میں مصروفِ عمل نظر آئے گا ـ جس روز خیر ی خیر سکون ہی سکون امن ہی امن سے خورشید تابناکی سے ابھرے گا نجانے کب ہو گی وہ سحر؟

Shahbano Mir

Shahbano Mir

تحریر : شاہ بانو میر