میلبورن: اس کی تیاری میں پانچ سال لگے ہیں لیکن اب مرض لاحق ہونے کی صورت میں رنگ بدلنے والی سلائیڈ کو خردبین سے دیکھ کر بہت آسانی سے مرض کی شدت معلوم کی جا سکتی ہے۔
اسے نینوایم سلائیڈ کا نام دیا گیا ہے جسے پلازمون فزکس کی بنیاد پر بنایا گیا ہے جس میں چارج شدہ ذرات میں الیکٹرون کی طرح تھرتھراہٹ ہوتی ہے۔ اس میں چاندی کے ذرات کی باریک پرت چڑھائی جاتی ہے اور آزاد پھرنے والے الیکٹرون کے لئے فیلڈ بن جاتا ہے۔ جب ان پر روشنی پڑتی ہے تو وہ ایک خاص ترتیب میں آجاتے ہیں۔
چاندی کی پرت میں نینوپیمانے کے باریک سوراخ پر جب روشنی پڑتی ہے تو وہ خلوی نمونے (سیمپل) سے گزرتی ہے اور یہاں کئی رنگ منتخب ہوجاتے ہیں۔ اس طرح رنگوں کا ایک طیف بنتا ہے جو فیلڈ میں موجود آزاد الیکٹرون کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے۔
اس طرح یہ نینوسلائیڈ جب خردبین کے نیچے رکھی جاتی ہے تو ایک طرح کا سینسر بن جاتی ہے۔ یوں کینسر زدہ خلیات مخصوص رنگ میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح نمونے میں مرض کی شناخت آسان ہوجاتی ہے۔ اس سے نمونوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور بہت آسانی سے کینسر زدہ خلیات (سیلز) کی شناخت ہو جاتی ہے۔
یہ کارنامہ آسٹریلیا کی لا ٹروب یونیورسٹی کی بیلنڈا پارکر نے انجام دیا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اس تجربے میں کینسرذدہ خلیات اطراف سے بالکل الگ دکھائی دیئے جنہیں شناخت کرنا بہت آسان تھا۔ اس سے قبل یہ کام بھوسے کے ڈھیر میں سوئی ڈھونڈنے جیسا ہی مشکل تھا۔
ماہرین پرامید ہیں کہ ٹیکنالوجی کو بڑھا کر ایسے تجارتی آلات بنائے جا سکتے ہیں جن کے طبی اور غیرطبی دونوں طرح کے استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نمونوں پر مبنی سلائیڈ کو صرف دس منٹ میں تیار کیا جا سکتا ہے۔