سورہ بنی اسرائیل پارہ نمبر ١٥آیت نمبر٣٧ میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ زمین میں اکڑ کر نہ چلو تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو قرآن کریم مسلمانوں کیلئے رشد و ہدایت کا بہترین سرچشمہ ہے۔ اور غیر مسلموں کیلئے بھی ایک بہترین ضابطہ اخلاق کی کتاب ہے ہے جس میں زندگی کے تمام عوامل اور اصول ضوابط کا بہترین نظام موجود ہے۔ بیشتر ممالک اس بابرکت کتاب سے مستفید ہورہے ہیں اور ترقی اور کامیابی کے زینے پارہے ہیں۔ مگر یہ بات صد افسوس ہے کہ ہم آپسی جھگڑو ں اور شان و شوکت کے چکروں میں پڑ کر اس کتاب سے کوسوں دور ہوچکے ہیں ہم اپنے آپ کو مسلمان کہلوانا تو فخر محسوس کرتے ہیں مگر اسلامی تعلیمات اور قرآن کے بتائے ہوئے اصولوں سے دور ہوتے جارہے ہیں اور یہی سبب پورے عالم میں مسلم امہ کے زوال کا سبب بن رہا ہے۔
مگر ہم ان سب چیزوں سے بے نیاز اپنے رعب دبدبہ اور حاکمیت قائم کرنے میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اگر ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں کو اپنا لے توکجا مجال کہ مسلم امہ کو کوئی بھی گزند پہنچ چکے۔ مگر ہم سب ان باتوں سے ماورا ہوکر مادیت پرستی میں بری طرح غرق ہوچکے ہیں۔ ہمیں کوئی عہدہ مل جاتا ہے تو ہم اپنی اوقات سے ہی باہر ہوجاتے ہیں خود کو ہی مطلع العنان سمجھ بیٹھتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ سب اُسی اللہ کا عطا کردہ ہے جو کچھ دے سکتا ہے تو سب کچھ لے بھی سکتا ہے اسی ضمن میں سورہ بنی اسرائیل کی یہ آیت میرے ذہن میں گردش کررہی تھی جو میں نے اوپر ذکر کی یہ واقعی حقیقت ہے ہم تھوڑی سی بھی طاقت یہ کسی جگہ پر فیصلہ کرنے کی اجازت مل جائے تو ہم اپنے آپے سے باہر نکل جاتے ہیں گردن میں سریا فٹ کرلیتے ہیں۔
اپنے آس پاس کے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ میرا موضوع صرف سیاست دان ہی نہیں بلکہ اس میں ہم سب لوگ شامل ہیں۔ خواہ کوئی بھی جگہ ہوں ہمیں بس تھوڑی سے طاقت ملنے کی ضرورت ہے ہم اُس کے نشے میں اتنے چور ہوجاتے ہیں کہ اپنے آس پاس بھی کسی کو پھٹکنے نہیں دیتے۔ حالانکہ جس طاقت کے نشے میں ہم چور ہوتے ہیں وہی اللہ اس طاقت کو چورا چورا بھی کر سکتا ہے۔کیونکہ عزت دینا اور دیکر کر واپس لینا یہ سب اُسی کے اختیار میں ہے۔ نجانے کیوں ہم یہ سب کچھ جانتے تو ہیں مگر پھر بھی ہم اللہ پاک کے یہ ارشادات اور نبی پاکۖ کے فرمودات کیوں بھول جاتے ہیں اور کیوں دوسروں کے حقوق غصب کرنے میں لگ جاتے ہیں کیوں اپنے تھوڑے سے مفادات کیلئے دوسرے کو قربان کر دیتے ہیں۔ کاش آج کے مسلمانوں کو یہ بات سمجھ آجائے تو زندگی کتنی آسان بن جائے۔
Muhammad (saw)
میں اپنے والد صاحب سے اکثر ایک کہانی سنا کرتا تھا جس میں ایک میراثی اور ایک چوہدری کا ذکر تھا اُس وقت تو میں اس کہانی کو مزاح کے طور پر لیتا تھا مگر جب پریکٹیکل لائف میں قدم رکھا تو ایسے بہت سے میراثیوں سے پالا پڑا جو کسی بھی جگہ پر اپنی اوقات دکھانے سے باز نہیں آتے۔ ویسے میں ذات پات پر یقین نہیں رکھتا کیونکہ میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ حجتہ الوداع میں یہ بات بالکل واضح کردی کے کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ماسوائے تقویٰ اور پرہیزگاری کے۔ ذات پات پہچان کی حد تک تو ٹھیک ہے کہ فلاں کس قبیلے اور قومیت سے تعلق رکھتا ہے مگر اس کو اپنے اوپر لاگو کرلینا کسی طرح مناسب نہیں کیونکہ جب نبی پاکۖ نے اپنے آخری خطبہ میں سب واضح کر دیا تو میرے نزدیک ذاتوں کے چکر میں پڑنا کسی طور مناسب نہیں۔
قارئین کرام تھوری سے تمہید ذات کے حوالے سے یوں دینا پڑی کہ میں جو کہانی لکھنے جارہا ہوں تاکہ اُس کو پڑھ کر کوئی شخص گمراہی کا شکار نہ ہو اور ذاتیات کے حوالے سے میں ہدف تنقید نہ بن سکو۔ کیونکہ بعض دفعہ کہانیوں میں بہت سے سبق اور کچھ انسانوں کی عادات شامل ہوتی ہیں جس سے اُن کی اوقات کا پتہ چلتا ہے کہ اگر ان سے کوئی کام لے لو یا انہیں کوئی کام کہ دو یا کسی بھی جگہ انہیں اپنے ساتھ شامل کر لوتو وہ اس چیز میں شامل تو ہوجائیں گے مگر اپنی گھٹیا حرکتوں اور اوچھے پن سے بعض نہیں آتے وہ مشہور قصہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک گاؤں کے میراثی کو قیمتی چادر لینے کا بہت شوق تھا، اس نے بہت سالوں تک پیسے جمع کرکے ایک بہت خوبصورت اور قیمتی چادر تیار کروائی جو اپنی مثال آپ تھی۔
گاؤں کے سب لوگوں نے اسکی چادر کی تعریف کی اور بہت پسند کیا، کچھ دن بعد گاؤں کے چوہدری کے بیٹے کی شادی تھی، چوہدری کے بیٹے نے ایک عجیب شرط عائد کر دی کہ وہ بارات ایک ہی صورت میں لے کر جائے گا جب میراثی کی خوبصورت چادر اسکے گھوڑے پر ڈالی جائے گی، مشکل یہ تھی کہ ایسی چادر پورے علاقے میں کسی کے پاس نہ تھی۔ میراثی کسی صورت بھی چادر دینے پر آمادہ نہیں تھا لیکن چوہدری نے کسی نہ کسی طرح اس سے چادر لے لی اور مجبورا” اسے بھی بارات میں شامل ہونے کا کہہ دیا میراثی بجھے دل کے ساتھ بارات میں شامل تھا بارات دوسرے گاؤں سے گزر رہی تھی کہ ایک آدمی نے میراثی سے پوچھ لیا کہ بارات کس کی ہے۔
Barat
میراثی نے جواب دیا کہ بارات تو چوہدری کے بیٹے کی ہے لیکن چادر میری ہے۔بارات میں شامل کچھ لوگوں نے بھی یہ بات سن لی اور چوہدری کو بتادی چوہدری نے اس بات میں اپنی بے عزتی محسوس کی اس نے میراثی کو بلا کر سمجھایا کہ کسی کو نہ بتائے کہ چادر اسکی ہے ورنہ لوگ کیا کہیں گے کہ چوہدری نے بیٹے کی شادی پر چادر مانگ کر لی ہے، میراثی نے کہا ٹھیک ہے جی اب کسی کو نہیں بتاؤں گا کہ چادر میری ہے چلتے چلتے پھر کسی نے میراثی سے پوچھ لیا کہ بارات کس کی ہے میراثی نے جواب دیا کہ بارات تو چوہدری کے بیٹے کی ہے لیکن چادر کا پتہ نہیں۔ چوہدری تک پھر بات پہنچ گئی، چوہدری کو بہت غصہ آیا اس نے میراثی کو بلا کر کہا کہ یار تم چادر کی بات کرتے ہی کیوں ہو۔
کیوں لوگوں کو شک میں مبتلا کرتے ہو، اب اگر چادر کی بات کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ میراثی اندر ہی اندر غصے میں کھول رہا تھا اچانک ایک آدمی نے اس سے پوچھا کہ یار یہ بارات کس کی ہے، میراثی نے جل کر جواب دیا جاؤ اپنا کام کرو نہ مجھے بارات کا پتہ ہے نہ چادر کا۔ قارئین کرام سو بعض دفعہ ہمارے آس پاس خواوہ وہ کام کرنے کی جگہ ہوں یا کوئی اور اہم امور کی انجام دہی تو ایسے کم ظرف لوگوں سے تو پالا پر ہی جاتا ہے۔
جو کوئی عہدہ مل جائے تو اپنی اوقات بھول کر اُن لوگوں کے ساتھ بھی دغا بازی کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ جن کی مرہون منت وہ اس مقام تک پہنچے ہیں اور اگر اُن سے کوئی کام لے لیا جائے تو وہ بے دلی سے وہ کام کرنے پر راضی تو ہوجاتے ہیں لیکن اُس کام کا بھی کام تمام کردیتے ہیں اسی میراثی کی طرح۔ اللہ ہم سب کو صحیح راستے کی توفیق اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی استطاعت عطا فرمائے۔ اور ایسے میراثی قسم کے لوگوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین