تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ ایک نیا جاری قومی اخبار جو لاہور،کراچی، اسلام آباد اور فیصل آباد سے بیک وقت شائع ہوتا ہے، جس کا اپنا الیکٹرونک چینل بھی ہے، جس اخبار کو پڑھنے کے لیے مجھے چند دستوں نے یہ کہتے ہوئے مشورہ دیا کہ یہ نیا اخبار قائد اعظم کے دو قومی نظریہ اور پاکستان کے نظریہ حیات کا پاسبان ہے، جو پاکستان کے موجودہ حالت کا صحیح نقشہ پیش کرتا ہے۔ بلکہ ایک دوست نے اس نئے اخبار کی اشاعت مورخہ٢٥اگست٢٠١٧ء بروزجمعة المبارک٢ ذوالحج ١٤٣٨ھ کے ایڈ یٹوریل صفحہ بھی دیا کہ اس کے ایک کالم نگاروغیرہ وغیرہ کے عنوان سے تاریخ کے پردے کے پیچھے چھپے سچ کو کھول کر بیان کرتے رہتے ہیں۔ مگرانہوں نے اِس دن سچ بیان کرتے کرتے شاید نادانستہ نا مکمل سچ بیان کیا ہے۔ اس پر تبصرہ لکھ کر اس اخبار کو ارسال کریں کے اس نئے اخبار کے قاریوں تک مکمل سچ پہنچ جائے۔
ہم نے سارے کالم کو بغور پڑھا۔ہمارے پیٹی بھائی وغیرہ وغیرہ والے صاحب لکھتے ہوئے جب اپنے کالم کے پانچویں حصے پر پہنچتے ہیں تو اس حصے میں یوں لکھتے ہیں کہ”ولی خان اور ان کے ساتھی ویسے ہی محب وطن تھے جیسے کہ دوسرے لوگ، ان کا نظریاتی قبلہ سوویت یونین تھا۔لیکن وہ صرف انہی کا قبلہ نہیں تھا،پاکستان میں اور بھی بے شمار ترقی پسند لوگ تھے جو وویت یونین کو قبلہ مانتے تھے۔یہ تضاد بھی خوب رہا کہ پنجاب اورسندھ کے یہ قبلہ پرست تو محب وطن رے، لیکن ولی خان اور ان کی جماعت غدار۔١٩٧٠ء کے الیکشن کے بعد نیپ اور جے یو آئی (مفتی محمودگروپ) نے اتحاد بنایا اور صوبہ سرحد’ اب( پختونخواہ) اور بلوچستان میں حکومتیں بنائیں۔ جے یو آئی کو بھی محب وطن حلقے غدار اور بھارت کا ایجنٹ مانتے ہیں۔اگرچہ اُس درجے کا نہیں جس درجے کی اے این پی ہے۔ اور تاریخ کی ایک نہایت ہی ” ستم ظریفانہ” سچائی یہ ہے کہ ١٩٧١ء میں یہ دو اکیلی جماعتیں تھیں جنہوں نے پاکستان توڑنے کی مخالفت کی ۔یخییٰ خان اور ٹکا خان کے حجرے میں باقی ساری کی ساری جماعتیں تھیں۔ پیپلز پارٹی،مسلم لیگ کے جملہ دھڑے،جماعت اسلامی،جمہوری پارٹی،تحریک استقلال،اور جو بھی دوسری جماعتیں تھیں۔ سب کی سب دامے درمے سخنے پاکستان توڑنے کی حمایت کر رہی تھیں۔جماعت اسلامی نے توملک توڑنے کے لیے عملی خدمات بھی فراہم کی ۔تو ایسے میں صرف نیپ اور جے یو آئی ہی ایسی جماعتیں تھیں جو پاکستان کو متحد رکھنے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ولی خان نے تو کئی بیانات ایسے دیے اور ملک توڑنے کی کوششوں پر انتباہ کیاتھا۔ نقار خانہ میں ان کی سننے والا کوئی نہیں تھا”۔ وغیرہ وغیرہ کے کالم نگار نے کیا خوب صورت طریقے سے نامکمل سچ بیان کیا ہے۔ تاریخ پاکستان میں تو یہ مکمل سچ اس طرح بیان ہوا ہے کہ۔جس شیخ مجیب نے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی ایما پر اگر تلہ سازش کے تحت چھ نکات پیش کیے تھے وہ تو پاکستان توڑنے کے لیے ہی تھے۔ جن کی ولی خان صاحب اور جے یو آئی حمایت کر رہی تھی۔
اگر وہ من و عن مان لیے جاتے تو پاکستان نے پھر بھی ٹوٹناتھا۔ اس لیے جماعت اسلامی اور باقی محب پارٹیوں نے مجیب کے چھ نکات کا ساتھ نہیں دیا اور اس کے پاکستان توڑنے کی مخالفت کی اور پاکستان کو بچانے کی ممکن حد تک کوشش بھی کی جس میں جماعت اسلامی پیش پیش تھی۔ الہٰذا ولی خان کے بیان پاکستان کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ غدار وطن مجیب کو تقویت پہنچانے اور اپنے آقا بھارت کو خوش کرنے کے لیے تھے۔ولی خان کے مرحوم والد صاحب جو سرخ پوش اور سرحدی گاندھی کہلاتے تھے۔ جن کے ماتھے پر اندرا گاندھی نے ہندوئوں کے مشہور معروف نشان تلک لگایا تھا۔ جن کے خاندان کے لوگ مندروں میں جا کر ہندوئوں کی مذہبی تحریک میں شامل ہوتے تھے۔ بھارت سے تھیلیاں بھر بھر کر اعلانیہ امداد حاصل کرتے تھے۔ جن کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کی سکھوں سے رشتہ داریاں تھیں۔ جو ہمیشہ پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان کے کمونسٹوں اور قوم پرستوں کے ساتھی رہے ہیں۔ جنہوں نے پاکستان بنتے ہی بھارت کی ایما پر ہمیشہ پاکستان کے ساتھ پشتونستان کا مسئلہ کھڑا کیا رکھا تھا۔ جن کو ان کے افغانستان کے دوست بابائے پشتونستان کہتے تھے۔ جنہوں نے پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کیا تھا ۔جو افغانستان کے شہر جلال آباد میں دفن ہے۔ جو پاکستان اور پاکستان کے بانی قائد اعظم کے مخالف اور گانگریس کے فعال کارکن تھے۔ جو ہندوئوں کے لیڈر گاندھی کے نام پر سرحدی گاندھی کہلانا پسند کرتے تھے۔ جن ہی کی وجہ سے افغانستان نے پاکستان کو تسلیم بھی نہیں کیا تھا۔جنہوں نے آج تک کالاباغ ڈیم نہیں بننے دیا۔ پاکستان توڑنے کا سبب بننے والے ١٩٧٠ء کے غیر آئینی ، غیر حقیقی اور پاکستان کے نظریہ کے متصادم الیکشن میں مجیب الرحمان نے مشرقی پاکستان میں اکژیت حاصل کی تھی، ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان کے صوبہ پنجاب میں، ولی خان اورمفتی محمود صاحب کی پارٹیوں نے صوبہ سرحداب(خیبرپختونخواہ) اور بلوچستان میں کامیاب رہے اور ان دونوں صوبوں میں حکومتیں بنائی تھیں۔ ١٩٧٠ء انتخاب محب وطن حلقوں کے سوچ کے مطابق ،مجیب کے پاکستان سے علیحدگی پر مبنی اور اگر تلہ میںبھارت کی ایما پر بنائے ہوئے چھ نکات، بھٹو کے نظریہ پاکستان کے خلاف اسلامی سوشل ازم، ولی خان کی پاکستان مخالف قوم پرستی اور مفتی محمود صاحب کی مدر پارٹی ہندوستان کی کانگریسی علماء جو پاکستان کے مخالف تھے کی سوچ پر ہوئے تھے۔ جو قاعد اعظم بانی پاکستان کے دو قومی نظریہ، نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان کے بھی مخالف سوچ کے تحت لڑے گئے تھے۔
مشرقی پاکستان میں مکمل غنڈہ گردی کا رائج تھا۔قوم پرست بنگالیوں نے کسی مخالف کو جلسہ تک نہیں کرنے دیا۔جماعت اسلامی کو پاکستان بچانے کے لیے پہلا تحفہ ایک جلسہ میں اس کے کارکن کو شہید کر کے قوم پرستوں نے دیا تھا۔ وہ الیکشن بین لاقوامی جمہوری اصولوں کے بھی خلاف تھے۔جب غدار پاکستان نے بھارت سے مل کر پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے تھے۔ تو مغربی پاکستان میں نئے سرے سے عوام کی رائے لینا ضروری تھی جو نہیں لی گئی۔متحدہ پاکستان کے تحت لڑے گئے اُس وقت کے الیکشن کسی طرح بھی منصفانہ نہیں تھے ۔پاکستان جو ” پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ ” کے نام سے بنا تھا۔ پاکستان کے اسلامی نظریہ کے مطابق نہیں تھے۔ زور دبردستی، غندہ گردی، قوم پرستی اور غلط نظریات پر مبنی الیکشن تھے۔ہاں سیکولر اور بھارت نواز حلقے ان انتخابات کو صحیح مانتے ہیں۔ اب وغیرہ وغیرہ کالم نگار کے جماعت اسلامی والے نامکمل سچ کی بات کرتے ہیں۔ واہ سے نامکمل سچ تیرا کیا کہنا!۔ آیئے ہم آپ کو مکمل سچ بتائیں۔ کہتے ہیں دوسری جماعتیں کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی نے پاکستان توڑنے میں ساتھ دیابلکہ عمل بھی کیا۔ صاحبو!کیا جب کوئی دشمن ملک کسی ملک کو توڑنے کیلیے فوج کشی کرے تو محب وطن صرف تماشہ دیکھتے رہیں۔ اپنے ملک کو بچانے کے لیے اپنے ملک کی فوج کا ساتھ نہ دیں تاکہ دشمن آرام سے ان کے ملک کوتوڑ دے۔ مثلاً اگر آج خدا ناخواستہ ہمارے ملک پر ہمار ازلی ادشمن بھارت ایک بار پھرحملہ کر دے تو محبت وطن لوگ پاکستا ن کی فوج کا ساتھ نہ دیں؟جماعت اسلامی مشرقی پاکستان میں نے کیا کیا تھا۔
یہی کیا تھا نا جو محب وطنوں کو کرنا چاہیے۔ کہ محب وطن بنگالیوں کی البدر تنظیم بنا کر پاک فوج کی بغیر کسی لالچ کے صرف پاکستان کی حفاظت کے لیے ساتھ دیا تھا۔کیا یہ پاکستان بچانے کا عمل تھا کہ پاکستان توڑنے کا عمل تھا۔ کیا وغیرہ وغیرہ کے کالم نگار کو پاکستان کی ازلی دشمن اندرا کا وہ تاریخی بیان نہیں پڑھا جس میں اس نے فخریہ کہا تھا کہ ” دو قومی نظریہ میں نے خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے مسلمانوں سے ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ بھی لے لیا ہے”۔جماعت اسلامی کے بانی بار بار کہتے رہے ہیں کہ بنگلہ دیش کو قائد اعظم کے تحریک پاکستان میں بیان کیے گئے اسلامی وژن ، دو قومی نظریہ اور اسلامی نظام کے نفاذ سے ہی متحد رکھا جا سکتا ہے جس پر حکمرانوں نے کان نہیں دھرے اور اور ہمارے بنگالی بھائی، جنوں نے پاکستان بنانے میں ہم سے زیادہ قربانیاں دی تھیں ہم سے الگ ہو گئے۔ کیا جماعت اسلامی نے اب تک قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کو بنگلہ دیش میں زندہ نہیں رکھا ہوا جس کی وجہ سے اس کے سات مرکزی رہنمائوں کو بنگلہ دیش کی بھارت نواز حسینہ واجدحکمران نے سولہ پر چڑھا دیا۔ ہزاروں مرد و خواتیں کارکنوں کو پابند سلاسل کر دیا۔ ولی خان کو وغیرہ وغیرہ کا کالم نگار کی طرف سے محب وطن کے سرٹیفیکٹ کے لیے اتنا عرض ہے کہ حال میںشائع ہونے والی کتاب”فریب ناتمام” کے اس بیان کو بھی پڑھ لیں تاکہ ریکارڈ درست ہو جائے اور مکمل سچ قارئیں کے سامنے بھی آجائے۔” ولی خان کی عوامی نیشنل پارٹی کے منحرف کیمونسٹ کارکن جمعہ خان صوفہ صاحب اپنی کتاب میں فرماتے ہیں” میں اجمل خٹک کے کہنے پر افغانستان میں خودساختہ جلا وطن تھا۔
ولی خان نے افغانستان کے قوم پرست حکمران سرادار دائود خان کو کہا تھا کہ پاکستان کی فوج بھارت سے شکست کے بعد کمزرو ہو گئی ہے۔ اس وقت پاکستان توڑ کر پشونستان بنانے کا سنہری موقعہ ہے۔ سردار دائود نے اپنے دور حکمرانی میں فریب ناتمام کتاب کے منصنف جمعہ خاں صوفی کو یہ پیغام دے کر ولی خان کے پاس پشاور بھیجا اور کہا کہ میں آپ کے پختون زلمے(ولی خان کے نوجونوں کی تنظیم) کو فوجی تربیت دینے کے لیے تیار ہوں۔ ولی خان نے پھر پختون زلمے اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو افغانستان بھیجا۔ ولی خان نے واپسی پیغام جمعہ خان کے ذریعے سردار دائود کو بھیجا کی کچھ پشتون پائلٹ پشاور سے جیٹ طیارے اغوا کر کے کابل کے ہوئی اڈے پر اتریں گے ان کو پاکستان کے حوالے ہرگز نہ کرنا۔ افغانستان میں ان دہشت گردوں کے کیمپوں کاحساب کتاب یہی جمعہ خان صوفی صاحب رکھتے تھے۔ وہ بھارتی سفارت خانے سے فنڈبھی لینے جاتے تھے۔ ولی خان کے ان ٹرینڈ دہشت گردوں نے پاکستان میں دہشت پھیلائی۔ حیات محمد شیر پائو کو قتل کیا۔پاکستان میں جگہ جگہ دہشتگردی کی کاروائیاں کیں۔ لاہور واپڈا کے دفتر پر حملہ کیا جس میں درجن بھر شہری شہید ہوئے۔ بلوچستان میں فوج کے خلاف لڑائی شروع کی۔بھٹونے اس بغاوت کے غلاف کے فوجی ایکشن لیا۔ ولی خان کی پارٹی خلاف قانون قرار پائی۔ ولی خان پر پاکستان کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم ہوا۔ جس کو بھٹو دشمنی میں ضیاء الحق نے بعد میں ختم کیا”۔ ہمارے دوست وغیرہ وغیرہ کے کالم نگار اس کتاب کو پڑھ لیں اور ایک کالم دوبارہ لکھ کر مکمل سچ بیان کر دیں تاکہ قارئین تک مکمل سچ پہنچ جائے۔ اللہ مثلِ مدینہ ریاست، مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو غداروں سے بچائے آمین۔