تحریر : ایم سرور صدیقی ایک کالم کیا چوری ہوا انہوں نے” رولا”ڈال دیا رولا بھی ایسا کہ سب کے سب کالم نویس، قاری اور اخبارات کے مدیران جو بھی پڑھتا ہے کالم چور کو لعن طعن کرنے لگتا ہے بے چارہ کالم چور حیران پریشان ہے کہ میں یہ کیا کر بیٹھا ہوں کسے چھیڑ لیا کہ جان بچانا مشکل ہو گئی ہے۔۔ ہر اخبار کے ادارتی صفحات،Facebook،سوشل میڈیا میں کالم چور کی ٹھکائی ہو رہی ہے ایسے میں ایک صاحب نے کمنٹس دیتے ہوئے مشور دیا ہے کہ ” ساڈے حکمران پورا ملک لوٹ کر کھا گئے اوئے تیرا ایک کالم چوری ہوا ہے تو پچھے ای پے گیا ایں بس کر یار” اب ایسے لوگوں پر کیا تبصرہ کیا جائے۔۔۔ ویسے ایسا پہلی بار نہیں ہوا اکثر کالم چور ایسا ہی کرتے ہیں جن کو لکھنا نہیں آتا وہ چوری نہ کریں تو پھر کیا کریں چوری کے ساتھ سینہ زوری کا اپنا ہی ایک مزاہے اور کالم چور مفت میں ایک ٹکٹ میں دو دو مزے لیتے ہیں یہ تو ایسے ہی ہے۔
منگویں دیوے روشن کر کے او ذہناں دیاں قبراں تے شاعر نیئں پر شاعر بن کے پھردے روز ادیباں نال
خودہمارے ساتھ بھی کئی ایسی” وارداتیں”ہوچکی ہیں کالم چوروں کی دیدہ دلیری دیکھئے سیم ٹو سیم لفظ بہ لفظ کالم اپنے نام پر ایسے چھپوالیتے ہیں کیا مجال جو ایک حرف بھی آگے پیچھے کرنے کی جسارت کی ہو یہ لوگ ہمارا کالم اس اہتمام سے شائع کرواتے ہیںجیسے باپ کا مال ہو اور اس پر اس قدر اتراتے پھرتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔۔خوشاب سے ملک نذیر اعوان، میاں چنوں کے الیاس محمد حسین اور نہ جانے کتنے کالمسٹ دہائی دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ عرصہ دراز سے سرقہ بالجبرکی وارداتیں ہورہی ہیں اورہم ان چور ڈاکووئں کا کچھ بیگاڑ بھی نہیں سکتے فیصل آباد، کراچی ،لاہور اور اسلام آباد کے کئی اخبارات میں ہمارے کالم دوسروں کے نام سے چھپ چکے ہیں پہل پہل ہم نے سوچا شاید ایسا ادارتی مدیر سے کوئی فروگذاشت ہو گئی ہے پھر تواترسے سلسلہ درازہوا تو ماتھا ٹھنکا سمجھ آئی مگر ہم جیسے بھولے بھالے کالم نگارکو دیر سے سمجھ آئی کہ یہ غلطی نہیں ہمارے ساتھ” ڈکیتی ”ہو رہی ہے۔
پاکستان میں کاپی رائٹ کا قانون مؤثرہوتا تو ہم نہ جانے کتنے کالم چوروں سے ہرجانہ وصول کر چکے ہوتے۔ ہم کالم چرا کر اپنے نام پر چھپوانے والوں کی اس قبیح حرکت پر رولا ہی ڈال سکتے ہیں دھرنا دینے کی سکت ہم میں نہیں کہ کئی مرتبہ اخبارات کے دفاتر کے آگے ہمیں دھرنا دینے کا خیال ہی آیا لیکن کسی سیانے نے سمجھایا کہ اگر عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی دھرنوںکی طرح یہ دھرنا پھیلتاہی گیا تو پھر کیا کرو گے۔
Column
ہم ڈر گئے کہ کہیں دھرنا گلے ہی نہ پڑ جائے۔۔۔اور پھر خوفزدہ ہوکر ایسا کرنے کا ارادہ ترک کردیا ایک بارہم نے کالم چوروں کی گوشمالی کیلئے ان کی تصویروںپر نظر دوڑائی یقین جانئے انہوں نے ایسے ایسے اندازسے پوزبنائے ہوئے تھے جیسے وہ سقراط، بقراط یا ارسطو کے ہم پلہ ہوں یا پھر علامہ اقبال نے ان سے انداز مستعار لے رکھا ہو نام بھی ایسے فصیح، بلیغ اورنادر کہ جیسے دستار ِ فضیلت کے حقدارہوں پھر دل نے کہا دوسروںکا حق مارنے والے اتنی عزت کے حقدارتو نہیں ہو سکتے۔
ان کو تو ناک ڈبونے کیلئے چلو بھر پانی ہی کافی ہوتاہے۔۔۔جیسے ایک سیاستدان نے کہا تھا ڈگری ۔۔ ڈگری ہوتی ہے اصلی یا نقلی کیافرق پڑتاہے لگتاہے کالم چوروں کا بھی یہی مسلک ہے۔۔۔ کالم چرانے والوں کو ایک مخلصانہ مشورہ ہے کہ کسی کا مال ہتھیانے کی کوشش کرنے سے بہتر ہے کہ آپ لکھنے کیلئے اپنے آپ کو تیار کریں اچھے کالم نگاروں اور مضمون نویسوں کا مطالعہ کرتے رہیں ابتدا میں حالات ِ حاضرہ چھوٹی چھوٹی تحریر لکھنے کی پریکٹس کریں ایک موضوع چن کر اس پر طبع ازمائی کریں کچھ دنوں بعد صفحات کی تعداد بڑھاتے جائیں خیالات پختہ ہو جائیں تو انہیں مختلف اخبارات کو چھپوانے کیلئے ای میل کرتے رہیں کوشش ، محنت اور لگن سے آپ بھی اچھے رائٹر بن سکتے ہیں دنیا کا کوئی رائٹر ماں کے پیٹ سے رائٹر بن کر پیدا نہیں ہوا۔
ہم کالم چوروں کو مشورہ مفت دے رہے ہیں پتہ نہیں وہ اس پر عمل کرتے بھی ہیں یا نہیں بہرحال اچھا مشورہ بھی امانت کی مانند ہوتاہے کالم چوروں کو اس مشورہ پر عمل کرنا چاہیے خواہ مخواہ کیوں ذلیل ہوتے پھرتے ہیں ۔۔۔ سناہے مفت کے مشورے پر عمل کرنے کو جی نہیں کرتا ۔۔ہاں ہاں نہ کریں آپس کی بات ہے ذلت و رسوائی سے بہتر ہے وہ کام کیا ہی نہ جائے ویسے ہم بھی ان کالم چوروں سے تنگ آچکے ہیں اس لئے ان کی شان میں ہمارا یہ دوسرا کالم ہے کیونکہ کالم چوروں کی ایفی شنسیاں کم ہونے میں ہی نہیں آرہیں ۔۔۔ہمارے کئی کرم فرما فون کرتے ہیں کہ فلاںاخبار میںکالم آپ کے لوگو کے ساتھ چھپاہے لیکن وہی کالم ایک اور اخبار میں اگلے چند روز بعد کسی اور کے نام سے چھپ گیا ۔۔۔یہ کیا چکرہے؟ اب ہم کیا بتائیں کہ ہم تو کافی مہینوںسے پریشان ہیں بلکہ اپنے کالم کسی اور کے نام پرچھپنے پر ہمیں چکر پہ چکر آتے رہتے ہیں اور ہم فریادکرتے ہیں۔
الہی یہ ماجرا کیا ہے؟ ۔۔۔۔ویسے یہ کالم چور ہیں بڑے ”بھولے”یا پھر حد درجہ” ایماندار”۔۔۔ سیم ٹو سیم وہی الفاظ ۔۔وہی ترتیب۔۔۔حتیٰ کہ عنوان بھی وہی۔۔کیا مجال ایک لفظ بھی اِدھر ادھر ہوجائے یا شاید پھروہ نقل کیلئے عقل کا استعمال کرنے کے بھی قائل نہیں۔۔۔ایک مرتبہ ” یادوں کی برات” والے جوش ملیح آبادی کسی مشاعرے میں شریک تھے ان کی موجودگی میں ایک غیرمعروف شاعرنے ان کی ایک نظم بڑی ٹھاٹھ سے سناڈالی جس پر داد تو بہت ملی لیکن جوش ملیح آبادی کو بہت غصہ آیا۔۔۔انہوںنے شاعرکے قریب جاکر پوچھا کیوں میاں صاحبزادے ے کیا حرکت کی؟ کون سی کیسی حرکت؟ شاعر نے بھولے پن سے جواب دیا۔۔۔کمال ہے جوش ملیح آبادی نے کہا میری نظم میرے ہی سامنے پڑھ ڈالی اور کہتے ہو کون سی حرکت؟ دیکھئے۔۔ غیرمعروف شاعرنے کہا۔۔۔ہو سکتاہے آپ کے اور میرے خیالات ٹکرا گئے ہوں۔
Writer
دیکھ بے ۔۔۔جوش ملیح آبادی نے اس کا شانہ جھنجھوڑتے ہوئے کہا کبھی جہاز اور سائیکل کی بھی ٹکر ہوئی ہے۔۔ خود معلوم نہیں آپ ہمیں آپ خوش قسمت کہیں یا بدنصیب اب تک مختلف کالم چور ۔۔۔ ہمارے کالم چوری کرکرکے سلور جوبلی منا چکے ہیں برادرم شاہد شکیل کا ایک کالم کیا چوری ہوا انہوں نے” رولا”ڈال دیا خدا کی پناہ ہمارے تو 25 کالم چوری ہو چکے ہیں اس کا مطلب ہے ہمیں تو آسمان سر پر اٹھا لینا چاہیے ویسے یار کسی کی محنت پر ہاتھ صاف کرنا کس قدر بے شرمی۔۔ بے غیرتی اور ڈھٹائی والی بات ہے اب ہم کیا کریں کس سے داد فریاد کریں۔
چور کہیں کے نقلچو زمانہ بھر کے۔۔۔ اگر تمام کالم نویس اور مضمون نگار اتفاق کریں تو اخبارات ورسائل اور میڈیا کو مجبور کیا جا سکتا ہے جس پر کالم چوری کا الزام ثابت ہو جائے اسے بین کردیا جائے اس سلسلہ میں کالم نویسوں کی تنظیموں کو فعال کردار ادا کرنے کی انتہائی ضرورت ہے ورنہ جو مرضی کرلو کالم چوروں کو شرم نہیں آنے والی ہم ” متاثرین” یونہی کچیچیاں ڈالتے رہیں گے اورسرقہ بالجبر کرنے والے چوری کے ساتھ ساتھ سینہ زوری کرتے رہیں گے۔