آئو فحاشی کا خاتمہ کریں

Devil

Devil

انسان، انسان کا دشمن کب اور کیسے ہوا۔؟ایسے کیا محرکات ہیں جو انسان کو شیطان بنا گئے۔انسان تب بھٹکتا ہے جب وہ سیدھے راستے سے ہٹ جائے۔ظاہری عیش و عشرت،لالچ نے انسان کو بے ضمیر بنایا ہے۔ جب انسان رحمان کو بھول کر شیطان کے ہمراہ ہو جاتا ہے تو اس کا دل زنگ آلودہ ہو جاتا ہے، گناہ و ثواب کا فارمولا بے معنی ہو جاتا ہے۔ دن بدن وہ گناہوں کی دلد ل میں پھنساتا چلا جاتا ہے اور آخر موت اسے اپنے پہلو میں سما لیتی ہے۔

آج دُنیا میں بُرائی عروج پر ہے۔ہم گناہ پہ گناہ کیے جاتے ہیں اور زمین پر سینہ تان کر چل رہے ہیں۔جسم فروشی عام ہو گئی ہے ، مانا کہ غربت گناہوں پر مجبور کر دیتی ہے لیکن غربت نے عزت و آبرو تک نیلام کروادی،کبھی دیکھا نہ سنا تھا۔انسان غیرت کے نام پر کٹ مر جاتے تھے۔اپنی اور ہمسائیوں کی عزتوں کی حفاظت کیا کرتے تھے۔کوئی بھی اہل مسلم جسے(خوف خدا)ہوگا اپنی عزتیں نیلام نہیں کرے گا۔گھروں میں فاقہ کشی ہے،بیماری ہے،کئی کئی دن چولہے میں آگ نہیں جلتی ،نہ جلے،مگر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے گااور نہ اپنی عزتوں کی دھجیاں اڑائے گا۔لیکن۔۔۔۔۔ لیکن کئی ایسے ضمیر فروش میرے دیس میں آبسے ہیں جنہیں شرم تک نہیں آتی۔اپنے ہی ہاتھوں اپنی عزتیں فروخت کر رہے ہیں۔اپنی ماں،بیٹی،بہو،بیوی سے جسم فروشی کا دھندا کر وارہے ہیں۔مردہ دل،ضمیر فروش جن کی نظریں صرف اور صرف نوٹوں پر ہوتی ہے۔ان کے لئے ماں،بہن،بیٹی کی کوئی قدرومنزلت نہیں ہے۔ان کے لئے دنیا کی تمام عورتیںایک جیسی ہوتی ہیں۔اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی نشمن کو جلا رہے ہیں۔میں حیران ہوں پھر بھی خوش ہیں۔ان کے درمیان رہ کر،ان کے ہاتھوں کی پکی روٹی کھا،بیوی کا سامنا کیسے کرتے ہوں گے؟بہن سے کیسے نظریں ملاتے ہوں گے،اور تو اور جنم دینے والی ماں کو ماں کیسے پکارتے ہوں گے۔ کیاان کے سر ندامت سے جھکتے نہیں ہو گے۔

ان کے کانوں میں اذانوں کی آوازیں بھی گونجتی ہیں۔ مگر جن کے دل مر چکے ہوں ان کے لئے کیسا مذہب، کیسا دین، کیسے رشتے، کیسا احترام، کیسا تقدس۔ قرآن نظر آتا ہے نہ مسجد، دین نظر آتا ہے نہ دنیا، بس نوٹوں سے غرض ہے۔کہاں سے ملے،کیسے حاصل کیے کیونکر جانے،جاننے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ پہلے شہر بھر میں شاید ایک ہی مقام ہوتا ہوگا جہاں کمینے لوگ مکروہ دھندا کرتے ،کرواتے ہوں گے ۔مگر آج شہر ، قصبے، گلی محلے ان کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔کتنے افسوس ناک بات ہے ایک طرف مسجد ہے اور دوسری طرف فحاشی کے اڈے، ضمیر فروش لوگوں کے لئے تو خوشی کی بات ہے لیکن عزت دار انسان کا جینا محال ضرور ہو گیا ہے۔ضمیر فروش کھلے عام اپنے دھندے میں مگن ہیں۔ان کو کسی سے پردہ نہیں ہے، جہاں سے امام مسجد گزر رہا ہے، اسکول، کالج کی نوجوان لڑکیاں گزر رہی ہیں۔

Girl Rape

Girl Rape

یہ لوگ اپنے گھروں تک محدود نہیں ہیں۔اسکول جاتی، کالج جاتی لڑکیاں اغوا کرتے ہیں، گھروں سے نوجوان لڑکیاں اٹھواتے ہیں اور جسم فروشی پر لگا دیتے ہیں۔ مذہبی، دین دار لوگوں کی عزتیں برباد کرتے ہیں۔ا ن کیلئے نہ قانون ہے نہ عدالتیں۔ کیونکہ قانون بھی ان کا ہے،عدالتیں بھی ان کی ہیں۔جب عزتوں کے رکھوالے، رزتیں نیلام کرانے لگیں تو سب ختم ہو جاتا ہے۔اس گنگا میں سب ننگے ہیں۔ بڑے بڑے سفید پوش لوگوں کو اس میں نہاتے دیکھا ہے۔ پولیس ان کی(کانی)ہوتی ہے۔بڑے آفیسروں کو ان کی کوٹھیوں پر شراب اور شباب کے مزے اڑوایئے جاتے ہیں۔

آج میرے وطن میں اگر فحاشی کو عروج ہے تو ان ہی بڑے بڑے آفیسروں کی مہربانی ہے۔اپنی عزتوں کے خیر خواہ اپنے ہم منصب کی عزتیں تار تار کر تے پھرتے ہیں۔جسم فروشی کا کاروبار کرنے والے ان کے نام پر ڈنڈاناتے پھرتے ہیں، جو قانون کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں۔ان کے لئے جیلیں، کالی کوٹھریاں، کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔یہ سب تو ان کے گھر کی کھیتاں ہیں۔

آج ہماری نوجوان نسل برباد ہو چکی ہے۔تعلیمی مقابلے میں ہم زیرو لیول سے بھی نچلے درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ترقی کی ڈور میں سب سے پیچھے کھڑے ہیں۔جو معاشرہ اپنی عزتوں کو نہ بچاپایا وہ خاک ترقی کرے گا۔یہ سفاک، بدنما چہرے بدنامی کا باعث ہیں۔جب تک ان کا کریک ڈون نہیں کیا جاتا ہے ہم پستی میں گِرتے جائیں گے۔ اب تو یہ حالات ہیں کہ آپ کسی ہوٹل، ریسٹورنٹ پر ٹھہریں آپ سے لازمی پوچھا جائے گا۔شراب کے ساتھ شباب بھی ملے گا۔ ایک ٹائم میں ڈبل مزہ لینا چاہیں گے؟وغیرہ وغیرہ۔ ہماری حکومت، حکومتی عہددران میں میر جعفر،میر صادق بستے ہیں، جن کی سرپرستی میںمکرو دھندے عروج پر ہیں۔یہ میر جعفر، میر صادق نہ صرف معاشرے بلکہ پاک وطن پاکستان کو بدنام کرنے میں ایڑھ چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

کہا جاتا ہے جان بچانے کے لئے جسم کا ناکارہ حصہ کاٹنا پڑ جائے تو کاٹ کر جان بچائی جاتی ہے۔کیوں ناں ہم بھی اپنے ملک کی جان ومال کو بچانے کے لئے یک جان ہوکر کمینہ صفت لوگوں کو ختم کر دیں۔ہمیں یک جان ہو کر ایسی تمام بُرائیوں کا تدارک کرنا ہوگا تاکہ اپنے وطن کو ترقی کی ڈور میں سب سے اول لے آئیں۔اپنے ملک میں تمام فحاشی کے اڈے، ختم کریں اور چھوٹی سی چھوٹی بُرائی کو جڑ سے اکھاڑ دیں۔عوام اور حکومت کو ملکر ان عناصر کا خاتمہ کرنا ہوگا جو معاشرے میں بدامنی ،بُرائیاں پھیلا رہے ہیں۔

Majeed Ahmed

Majeed Ahmed

تحریر : مجید احمد جائی
majeed.ahmed2011@gmail.com