کامیڈی اداکار کی ٹریجڈی موت!

Nanah and Nazli

Nanah and Nazli

تحریر : اختر سردار چودھری
اداکار ننھا کا اصل نام رفیع خاور تھا اور وہ 1942ء میں ساہیوال میں پیدا ہوئے تھے ۔ کیر یئر کا آغاز تھیٹر سے کیا ، 1964ء میں ریڈیو پاکستان کے ایک پروگرام کے ذریعے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو اس بھرپور انداز میں پیش کیا کہ شائقین کی نظروں میں آئے ۔ کمال احمد رضوی صاحب کے پہلے ڈرامہ سیریل” آئو نوکری کریں” سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا اس کے بعد کمال احمد رضوی کی ہی ایک اور ڈرامہ سیریز ” الف نون” سے ان کی شہرت کا آغاز ہوا۔ اس سیریز میں ان کا کام دیکھ کر شباب کیرانوی صاحب نے انہیں اپنی فلم ” وطن کا سپاہی “میں مزاحیہ اور ایک حد تک ثانوی اداکار کا کردار دے دیا۔جس میں انہوں نے اتنی اچھی اداکاری کی کہ جس نے فلم دیکھی وہ تعریفیں کرنے لگتا۔اس فلم میں انہوں نے اپنے آپ کو منوا لیا۔

1976میں ریلیز ہونے والی فلم “نوکر” سے انہیں پہچان ملی جس کے بعد انہیں فلموں میں ہیروکے کرداروں میں کاسٹ کیاجانے لگا۔ فلم “ٹکاپہلوان” ان کی بطورہیروپہلی فلم تھی ۔بطور ہیرو ” دبئی چلو” کی کامیابی نے انہیں ملک گیر شہرت بخشی اور فن کی بلندیوں تک پہنچادیا۔ننھا کو عام طور پر مزاحیہ اداکاری کی وجہ سے شہرت ملی کہ وہ دو دہائی تک فلمی دنیا میں بطور مزاحیہ اداکار چھائے رہے ۔تاہم کئی مواقع پر انہوں نے اپنی سنجیدہ اداکاری سے بھی ناظرین کو بہت متاثر کیا۔ننھا کی یوں توسب فلمیں ہیں منفرد ہیں یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں اچھی فلمیں بنائی جاتی تھیں ،لیکن ننھا کی چند ایک فلموں نے بے پناہ شہرت حاصل کی ان میں سے “سوہرا تے جوائی “سالا صاحب ,سو نا چاندی,چوڑیاں,”زمرد ، بھروسہ “پلے بوائے ,لو سٹوری,دوستانہ “پردے میں رہنے دو،آس”نوکر “دبئی چلو۔

آخری جنگ ،نوکر تے مالک “دلاں دے سودے ” قدرت ، مرزا مجنوں، رانجھا، صاحب جی ، ، مہندی ، نمک حلال، تیری میری اک مرضی، انہوں نے مجموعی طور پر 391 فلموں میں کام کیا جس میں سے 166 فلمیں اردو، 221 فلمیںپنجابی ، 3 فلمیں پشتو اور ایک فلم سندھی زبان میں بنائی گئی تھی۔ بطور اداکار ان کی آخری فلم “ہم سے نہ ٹکرانا تھی” جبکہ ان کی آخری ریلیز ہونے والی فلم کا نام” پسوڑی بادشاہ” تھا۔ ننھا کی ٹائٹل رول پر مشتمل فلم “سالا صاحب “نے لاہور میں مسلسل 300 ہفتوں تک زیر نمائش رہ کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ اداس دلوں میں خوشیوں کے گل کھلائے ننھے نے اپنے وقت کے نامورمزاحیہ اداکاروں رنگیلا، منورظریف،لہری اورعلی اعجازکی موجودگی میں اپنے منفرداندازکوفلم بینوں سے منوایا، ننھا بلا شبہ پاکستانی فلمی تاریخ میں ایک بہت بڑا اور معتبر نام ہے جس نے اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں ایسا مقام پید ا کیا جو فلم بینوں کو ہمیشہ یاد رہے گا۔

Nanna

Nanna

دو دہائی 1966 سے لے کر 1986 تک وہ فلم بینوں کے دلوں پر راج کرتے رہے ۔فلموں کی ایک ضرورت شمار کیے جاتے تھے۔ان کی حقیقی زندگی اور فلمی زندگی میں تمنا بیگم ،علی اعجاز ،اور نازلی کا خاص کردار رہا ،تمنا بیگم ان کی دودھ شریک بہن تھی ،فلموں میں ان کو ننھے کے ساتھ بہت پسند کیا جاتا تھا ،اسی طرح علی اعجاز سے ان کی جوڑی بہت مشہور ہوئی ،اور نازلی کے بارے میں کیا لکھیں ،ایک بھولی بھالی صورت والی ،پنجابی مٹیار ان کے ساتھ ننھے کی جوڑی کو شائقین نے بہت پسند کیا ، آج بھی ان دونوں کی اداکاری دیکھ کر حقیقت کا گمان ہوتا ہے اور ایسا تھا بھی کیونکہ ننھا فلموں میں نازلی سے پیار کرتے کرتے حقیقت میں اسے پیار کرنے لگے۔

وہ حقیقی طور پر نازلی کے عشق میں مبتلا ہو کر سنجیدہ ہوچکے تھے ۔یوں تو فلم بینوں نے ننھا کے ساتھ علی اعجاز اور رنگیلا کی فلمی جوڑی کو بے پناہ پذیرائی بخشی جب کہ فلمی ہیروئنوں میں ممتاز ، انجمن ، مسرت شاہین ، رانی ، دردانہ رحمن اور نازلی وغیرہ کو بھی خوب پسند کیا جاتا تھا ۔ننھا کی بطور ہیرو اور کامیڈین سب سے زیادہ پسند کی جانے والی جوڑی نازلی کے ساتھ تھی۔یہ ننھے کے عروج کا دور تھا ،ننھا تو نازلی سے بے پناہ محبت کرتا تھا ،نازلی بھی اس کی محبت میں اسیر تھی ،لیکن ننھے کی محبت جنونی تھی ،نازلی کی طرف سے ملنے والی بے وفائی کی چوٹ کو وہ برداشت نہ کر سکے رفیع خاور ‘ننھا’ نے تمام عمر لوگوں میں مسکراہٹیں بانٹیں لیکن ان کی زندگی کا ڈراپ سین بہت المناک تھا، انہوں نے محبت میں ناکامی کے بعد خود کشی کر لی۔ یہ ایک کامیڈی اداکار کی ٹریجڈی موت تھی۔

وہ 2 جون 1986ء میں اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائے گئے۔ او ران کو علامہ اقبال ٹائون، لاہور میں کریم بلاک کے قبرستان میںدفن کیا گیا۔ شوبز کے قیمتی اثاثے ،مزاحیہ اداکار ننھا کوہم سے بچھڑے 29 برس بیت گئے ۔ لوگ ا سے 9 2 سال گزرنے کے باوجود بھی نہیں بھلا سکے۔ ننھا جیسا کامیڈی اداکار صدیوں میں پیدا ہوتا ہے ان کی ٹی وی اور فلموں کے لئے خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا وہ شوبز کا قیمتی اثاثہ تھے ۔ان کو متعدد فلموں پر ایوارڈ دیے گئے۔

Muhammad Akhtar Sardar

Muhammad Akhtar Sardar

تحریر : اختر سردار چودھری