حاکمانِ وقت پتہ نہیں ہمارے ”کمانڈو” کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے بیٹھے بٹھائے اُن کے خلاف غداری کا کیس گھڑ کر اُنہیں ”وخت” میں ڈال دیا جس پر اُنہیں اپنا سجا سجایا محل چھوڑ کر AFIC میں پناہ لینی پڑی۔ اُنہوں نے خصوصی عدالت کو لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ”طبلے سارنگی”سے دوری کی بنا پر اُن کے دِل کی دھڑکنیں بے قابو ہوئی جاتی ہیں لیکن خصوصی عدالت نے اُن کی درخواست کو دَر خورِ اعتنا نہ سمجھتے ہوئے ٹَکا سا جواب دے دیا۔
ویسے تو ہمارے محترم پرویز مشرف صاحب نے خصوصی عدالت کو اتنی درخواستیں لکھی ہیں کہ گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ والے اُنہیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں لیکن AFIC کے فوجی ڈاکٹر ز یہ کہتے ہیں کہ ہمارے کمانڈو کے پاس تو پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا، تُم کس کھیت کی مولی گاجر ہو۔
گینیز بُک والے تو خیر خصوصی عدالت کی تلاش میں بھی ہیں جس نے مشرف صاحب کی درخواستوں کے پہاڑ کو یکسر مسترد کرکے ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا لیکن آہ بیچارے گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ والے جِن کی رسائی خصوصی عدالت تک بھی نہیں ۔ہمارے کمانڈو جو ڈرتے ورتے کسی سے نہیں، نے ایک درخواست میں خصوصی عدالت سے یہ بھی استدعا کی کہ وہ بظاہر تو فِٹ بلکہ سُپر فِٹ ہیں لیکن در حقیقت ”آرمی ہاؤس” اور ”ایوانِ صدر” کی یادوں نے اُن کے اندر بہت توڑ پھوڑ کی ہے جس کی ”ریپیئر نگ ”کروانے کے لیے وہ اپنے بیرونی آقاؤں کے پاس جانا چاہتے ہیںاس لیے ہمدردی کی بنیاد پر اُنہیں بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی جائے۔
وہ وعدہ کرتے ہیںکہ عدالت جب بھی اُنہیں حاضری کا حکم دے گی وہ پہلی فلائیٹ پکڑ کر واپس آ جائیں گے لیکن عدالت کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب اعلیٰ عدلیہ میمو گیٹ سکینڈل والے سابق سفیر حسین حقانی تک کو واپس لانے سے قاصر رہی تو پھرسابق صدر ، سابق چیف آف آرمی سٹاف اور سابق چیف ایگزیکٹوپرویز مشرف کوبھلا خصوصی عدالت بھلاکیسے واپس لا سکتی ہے ؟۔رہی ”مشرفی وعدے” کی بات تو عدالت خوب جانتی ہے کہ مشرف صاحب نے ٹی وی پر قوم کو خطاب کرتے ہوئے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ وہ دسمبر تک وردی اتار دیں گے ۔اسی شرط پر سترھویں ترمیم منظور ہوئی لیکن مشرف صاحب نے صاف صاف کہہ دیا کہ اُنہیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ وردی تو اُن کی ”کھال” ہے اور بھلا کوئی اپنے ہاتھوں سے اپنی کھال اُتارتا ہے ؟۔ایم ایم اے والے بیچارے آج بھی مشرف صاحب کی اِس چالاکی پر مُنہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔اپنے پراسیکیوٹر اکرم شیخ صاحب نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ
تیرے وعدے پہ جیئے ہم ، تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مَر نہ جاتے ، اگر اعتبار ہوتا
ویسے بھی ہمارے ہاں ایوانِ صدر کے باسیوں کے وعدے قُرآن و حدیث نہیں ہوتے اِس لیے جنابِ پرویز مشرف کی یہ استدعا بھی بے کار ہے اب مشرف صاحب نے خصوصی عدالت کو ایک اور درخواست لکھ دی ہے جس میں 3 نومبر 2007ء کی غیر آئینی ایمر جنسی کو تسلیم کرتے ہوئے اُنہوں نے یہ لکھا ہے کہ اِس ایمرجنسی لگانے میں وہ اکیلے نہیںبلکہ 269 لوگ شامل تھے جن میں سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی ، پی سی او ججز ،کور کمانڈرز اور چاروں صوبائی گورنرزکے علاوہ سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز اور اُن کی کابینہ بھی شامل تھی۔گویا اب مشرف صاحب کا اپنے ہمراہیوں کو یہ پیغام دے دیاہے کہ اگر وہ اُن کی حمایت میں باہر نہیں آتے تو نہ سہی اب وہ ”خود تو ڈوبے ہیں صنم ، تُم کو بھی لے ڈوبیں گے” کے مصداق ”کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے۔
Pervez Musharraf
اِن 269 لوگوں کے بارے میں ہمارا علم ناقص ہے البتہ جن لوگوں کے بارے میں ہم جانتے ہیں اُن میں ہمارے ”پنڈی وال” شیخ رشید احمداور مشرف صاحب کو دَس بار وردی میں منتخب کروانے کے دعوے کرنے والے چوہدری پرویز الٰہی تو شامل ہیں ہی اور چوہدری شجاعت حسین نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایمر جنسی لگوانے والوں میں وہ بھی شامل ہیں۔شاید اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے شیخ صاحب ایک سال سے الیکٹرانک میڈیا پر حکومت کو متنبہ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ کمانڈو کو مت چھیڑنا کیونکہ بات اگر چل نکلی تو پھر دور تلک جائے گی لیکن کسی نے اُن کی باتوں پر کان نہیں دھرا۔ اب حکومتی ضد کو دیکھتے ہوئے چار و ناچار مشرف صاحب کو یہ کہنا ہی پڑا کہ اُن کے ساتھ دیگر 269 لوگوں پر بھی سنگین غداری کا مقدمہ درج کیا جائے۔
ہم سوچ رہے ہیںکہ اگر ایسا ہو گیا تو پھر خصوصی عدالت کے چھوٹے سے کمرے میں یہ 269 ”ملزمان” اور اُن کے لَگ بھَگ ایک ہزار وکلاء کیسے سمائیں گے ؟۔اِس کے لیے حکومت کو قبل اَز وقت کوئی نہ کوئی مناسب بند و بست کر لینا چاہیے۔ہمارا خیال ہے کہ خصوصی عدالت کے لیے کوئی سٹیڈیم بہتر رہے گا۔ویسے بھی آجکل ہمارے سارے سٹیڈیم طالبان کی مہربانی سے خالی پڑے بھاں بھاں کر رہے ہیں اِس لیے خصوصی عدالت ہی اُن کا بہتر مصرف رہے گا۔ویسے ہماری پیاری حکومت مالی لحاظ سے آجکل ”کمزور شمزور” ہے اِس لیے اگر خصوصی عدالت کی کارروائی دیکھنے کے لیے ٹکٹ لگا دی جائے تو ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ ایسا ”کھِڑکی توڑ” رَش پڑے گا کہ گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ والے بھی انگلیاں مُنہ میں داب لیں گے۔
اِس سلسلے میں انتظام و انصرام کے لیے جناب حمزہ شہباز اور جناب رانا مشہود کی خدمات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ اُنہیں ورلڈ ریکارڈ بنوانے کا تجربہ بھی ہے اور شوق بھی ۔ اگر ہماری اِس ”مدبّرانہ تجویز” پر عمل کیا گیا اور صرف چار چھ ماہ ہی خصوصی عدالت کا کیس چل گیا تو ہم گارنٹی دیتے ہیںکہ اگلے پانچ سالوں کے ٹیکس فری بجٹ کے لیے پیسہ اکٹھا ہو جائے گا اور جنابِ اسحاق ڈار کو اِدھر اُدھر سے مال اکٹھا کرکے ڈالر کو سو روپے تک لانے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی کیونکہ ڈالر خود ہی شرمندہ ہو کر پچاس روپے تک آ جائے گا۔
اگر ”آم کے آم، گٹھلیوں کے دام” کے مصداق میاں برادران کی خواہش کی تکمیل بھی ہو جائے اور ڈھیروں ڈھیر پیسہ بھی اکٹھا ہو جائے تو ایسا کرنے میں ہرج ہی کیا ہے یہ سب کچھ تو رکھیے ایک طرف ، اب ہماری وزارتِ داخلہ نے ہمارے محترم کمانڈو کومحض ”یَرکانے” کے لیے شوشہ چھوڑا ہے کہ مشرف صاحب کی جان کو بہت خطرہ ہے، القاعدہ اور طالبان نے اُن راستوں کو ”مارک” کر لیا ہے جن سے گزر کے مشرف صاحب نے خصوصی عدالت جانا ہے اور مشرف صاحب کی حفاظت پر مامور اُن کے حفاظتی دستے میں سے ہی کوئی اُن پر حملہ کر سکتا ہے اور بارود سے بھری گاڑی بھی ٹکرا سکتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں اور یہ محض ہماری وزارتِ داخلہ کی شرارت ہے۔بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ 26 ایجنسیاں، رینجرز اور پولیس کے ہزاروں جوان صرف ایک شخص کی حفاظت بھی نہ کر سکیں؟۔ دراصل وزارتِ داخلہ کے اربابِ اختیار نہیں چاہتے کہ ہمارے بہادر کمانڈو خصوصی عدالت میں پیش ہوں۔ وہ تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ مشرف صاحب عدالت میں پیش نہ ہوں اور خصوصی عدالت اُن کی عدم پیشی کو جواز بنا کر اُنہیں ”دَھر ” لے۔ مشرف صاحب سے والہانہ عشق کرنے اور اُن کی خاطر بندے بندے سے ”مُنہ ماری” کرنے والے احمد رضا قصوری صاحب نے تو اعلان بھی کر دیا ہے کہ مشرف صاحب خصوصی عدالت میں پیش نہیں ہونگے۔
اگر ایسا ہو گیا تو ہماری شرارتی وزارتِ داخلہ کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ ہم اپنا کالم مکمل کرکے ٹی وی پر نظریں گاڑے بیٹھے ہیں لیکن شنید ہے کہ موسم کی خرابی کی بنا پر خصوصی عدالت کے ججز کا طیارہ لیٹ ہو گیا ہے۔ ویسے خیال ہمارا بھی یہی ہے کہ مشرف صاحب آج عدالت نہیں آئیں گے۔