تحریر : ایم کامران ساقی تم کمانڈو ہو! یہ الفاظ ایک ایسے ریٹائرڈ فوجی کے ہیں، جس کا تعلق ہری پور سے تھا اور سن 1951 میں چند روپے ماہوار پر فوج میں بھرتی ہوا ۔ جب انگریز ابھی تک ہماری فوج کی کمان کو سنبھالے ہوئے تھے۔ اس فوجی نے حویلیاں ٹرین پر جا کر انگریز ٹرینر سے ٹریننگ لی۔ پاکستان کو مشرق اور مغرب میں تقسیم ہوتے دیکھا جسے آج بھی اپنے سینئر افسران اور جرنیلوں کے نام یاد تھے۔ اس فوجی نے آزاد کشمیر کے سرحدی علاقہ سے ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی جاسوس کو پکڑوا کر ایک اشرفی انعام میں حاصل کی ۔صرف یہی نہیں بلکہ سیالکوٹ کے قریب سے سکھ ہندوستانی جاسوس کو پکڑوا کر ایک ہزار روپے انعام بھی وصول کیا۔ اس شخص نے فوجی ہسپتال میں مریض کے ساتھ وارڈ میں اسکی خدمت کے لئے رکے ایک سول شخص کو دیکھا جو دن بھر مریض کی خدمت کے بعد ایک چادر میں زمین پر بڑے سکون سے سو رہا ہے۔
سونے کے باوجود رات کے ہر پل مریض کے حرکت سے آگاہ ہے اور اسکی خدمت میں حاضر ہے۔ جبکہ خود اس ریٹائر فوجی کو بیڈ پر بھی رات بھر نیند نہ آ سکی۔ صبح کے چھ بجتے ہی سول شخص بیدار ہوا اور چادر لپیٹ کر مریض کے بیڈ کے ساتھ رکھ دی۔ تب ہی اس سول شخص کو ایک آواز سنائی دی۔” تم کمانڈو ہو!”۔ یہ آواز اسی بڑھے ریٹائر فوجی کی تھی۔ جس کی آنکھ کسی ڈرون کیمرے ، رڈار یا سٹی سکین سے کم نہیں۔ ایک نظر دیکھ کر جاسوسی کی شناخت کرنے والے شخص نے کئی ممالک میں خدمات دیں اور زندگی کا بڑا حصہ جنگ و جہد میں گزارا۔ مگر شاید یہ ریٹائرڈ فوجی اس بار دھوکہ کھا گیا۔
شاید وہ نہیں جانتا کہ بے روزگاری ،موجودہ نظام تعلیم، لوڈ شیڈنگ ، بنیادی ضروریات تک بامشکل رسائی، مفلسی ، عدل و انصاف کے فقدان نے ایک عام آدمی کی زندگی کو ایک کمانڈو کی زندگی بنا دی ہے۔ جس میں اسے ان تمام چیزوں کے بغیر بھی خوشی کے ساتھ رہنے کی تربیت دی جاتی ہے جو اسکی بنیادی ضروریات ہیں۔ اسے سمجھوتہ کرنا اور حالات کے ساتھ بدلنے کی عادت ڈال دی ہے۔ ان ظالم حکمرانوں نے آج بچوں اور نوجوانوںکے چہروں سے مسکراہٹ تک چھین لی ہے۔ سیاسی مذہبی جماعتوں نے نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کی بجائے اسکے ہاتھوں میں سیاسی جھنڈے یا ہتھیار تھما دیئے ہیں۔
Jhang
جھنگ کی حالت زار بھی کسی دوسرے چھوٹے اور پسماندہ شہر سی ہے۔ جہاں ضلعی انتظامیہ نے کارپٹ روڈز، صاف پانی کی فراہمی کے لئے چندپلانٹس کی تنصیب ، ٹی ایم اے کو صفائی کے لئے نئی گاڑیوں اور آلات کی فراہمی، کروڑوں روپے کی لاگت سے سیوریج پلین بنانے سمیت چند مثبت کام کئے ہیں ۔ وہیں دوسری جانب شہری زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم نظر آتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال جھنگ میں ایمرجنسی سمیت کوئی بھی شعبہ قابل تعریف نہیں۔ شعبہ ایمرجنسی میں آنے والا مریض ڈاکٹرز ،سرجنز اور ادویات کے نایاب ہونے کے باعث یا تو علاج کی فریاد میں ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر جان گنوا دیتا ہے یا پھر جان لیوا امراض اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ ایمرجنسی کے شعبہ میں ڈاکٹرز اور دیگر کام کرنے والے افراد اس بات سے شاید لا علم ہیں کے وہ چند اوزار سارا دن تمام مریضوں پر بغیر کسی حفاظتی تدابیر یا ضائع کئے استعمال کرتے ہیں۔
جس سے صبح آنے والے مریض کی بیماریاں مثلا ایچ آئی وی ، ہپاٹائٹس اور دیگر شام تک آنے والے ساتھ لے کرجاتے رہتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ شعبہ حادثات تک پہنچنے والے مریضوں کی بڑی تعداد کا خون بہ رہا ہوتا ہے یا ٹیسٹ کے لئے خون نکالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جسکے لئے اس شعبہ میں اہم ڈسپوزبل آلات ، کیمیکل اور دیگر ضروری سامان دستیاب نہ ہونے کے سبب، نہ صرف مریض بلکہ ڈاکٹرز بھی لاشعوری طور پر ان امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔
Emergency Department
چند روز قبل ایک شہری کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک تصویر پوسٹ کی گئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے یہ ایک ساٹھ سال سے زائد عمر کا بزرگ ، چارپائی پر لیٹے اپنے مریض کی چارپائی کے ساتھ کپڑا باندھ کر کھینچ رہا ہے۔ اور چارپائی کو مریض سمیت شعبہ حادثات سے وارڈ میں منتقل کر رہا ہے۔ وہاں موجود عام افراد کی بے حسی اپنی جگہ مگر حکومت وقت کو غیر ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ جس نے آئین کی تشکیل کے وقت ریاست کے ہر رکن کو مفت اور معیاری علاج فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
آرمی ہسپتال میں ایک چادر میں سونے والے جس سول شخص کوآرمی آفیسر نے کمانڈو سمجھا تھا ، وہی سول شخص آج شہر محبت (جھنگ) میں بے بسی کے عالم میں شعبہ حادثات سے وارڈ میں اپنے مریض کو چارپائی پر اکیلے کھینچ کر لے جانے والے بڑھے شخص کو کہنے پر مجبور ہے۔ تم کمانڈو ہو!