تحریر: منشاء فریدی اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا مسائل کی اس قدر بھیڑ ہے کہ لکھنے کے لئے موضوع کا انتخاب کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اس سال ماہ ستمبر میں آنے والے سیلاب نے سرائیکی خطے کو جس تباہی سے دو چار کیا اس کی مثال شاید ہی کہیں ملے جب 12 ستمبر 2014 کو دریائے چناب کی بپھری لہریں ملتان اور مظفر گڑھ کی حدود میں داخل ہوئیں تو اس وقت تباہی کا منظر ناقابل برداشت تھا ہر طرف افراتفری کا ماحول تھا کچے اور پکے مکانات زمیں بوس ہورہے تھے بڑے بڑے تناور اور مضبوط درخت جڑوں سے اکھڑ رہے تھے سڑکیں اور دریا کے بند طوفان آب کو برداشت نہیں کرپارہے تھے تمام تر رکاوٹیں پانی کی لہروں کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہوئیں۔ کھیت خصوصاً کپاس اور دیگر فصلات اور باغات مکمل طور پر تباہ ہوئے
جب راقم نے سیلاب کے چند دن بعد جزوی طور پر راستے (سڑک) کی بحالی کے بعد ملتان کا سفر کیا تو راستے میں مکانات کی چھتوں تک پہنچا پانی اور بجلی کے کھمبوں پر باندھا بے گھر ہوئے لوگوں کا سازو سامان سیلاب کی شدت کی گواہی دے رہا تھا اور جس طرح سے سڑکوں پر سیلاب زدگان کی خیمہ بستیاں لگائی گئی تھیں ایک قابل رحم منظر تھا۔ بہت سے لکھاریوں نے اپنے تئیں بھر پور کوشش کی کہ سیلاب کی تباہی کا منظر سپرد قلم کر کے ارباب اقتدار و اختیار تک پہنچایا جائے جو یقیناً قابل ستائش عمل ہے لیکن زمینی حقائق اس سے زیادہ سچائی کی گواہی دے رہے ہیں بھلا ایک انسان کب تک فطرت کے مقابل کام کرسکتا ہے اس کے برعکس اگر آفات سماوی و ارضی میں کچھ انسانی زیادتیاں شامل ہو جائیں تو اس پر کچھ زیادہ ہی افسوس ہوتا ہے سرائیکی خطہ جو اس وقت حکومتی بے توجہی کا بری طرح سے شکار ہے
اس سیلاب سے زیادہ متاثر ہوا ہے یہاں کی انتظامیہ بھی اس ضمن میں خاموش نظر آئی اس دوران سیلاب زدگان کو ریسکیو کے عمل میں بھی روایتی بے حسی دیکھنے میں آئی اور اب سیلاب کا شکار ہونے والوں کی بحالی کے عمل میں بھی انتہائی سستی کا مظاہرہ کیاجارہا ہے۔سیلاب کی تباہی، انتظامیہ کی نااہلی اور اب بحالی کے عمل میں ناانصافی کا ذکرکرتے ہوئے سرائیکی کے مشہور شاعر اور متعدد شعری مجموعوں کے مصنف بلال بزمی جو بستی ڈھنڈ والا موضع دوآبہ تحصیل و ضلع مظفر گڑھ سے تعلق رکھتے ہیں کہا کہ سیلاب کی تباہی کے پیش نظر امدادی کام ایک فی صد بھی نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ عمل صحیح طرح سے سرانجام دیا جارہا ہے انہوں نے افسردہ لہجے میں کہا کہ جب دو آبہ بند کو توڑا جارہا تھا
Flood
تو شیر شاہ بند بھی توڑ دیا گیا مین روڈ ملتان کو تلیری پل کے قریب ایک بڑا کٹ لگایا گیا اور ہائی وے ڈی جی خان روڈ کو بھی ایک بڑا کٹ لگا د یا گیا تھا۔ ہم آٹھ دن تک بری طرح پھنسے رہے اس دوران ہم تک راشن پانی بھی نہ پہنچا بلال بزمی نے مزید کہا کہ دو آبہ بند مظفر گڑھ شہر کو سیلاب سے محفوظ رکھتا ہے دو آبہ بند توڑنے سے سیلاب کا پانی مظفر گڑھ شہر کے علاقہ تلیری بائی پاس اوربھٹہ پور اور کوتوال تک پہنچ گیا جب چاروں طرف پانی ہی پانی تھا تو اس دوران ہمارے پاس خیمے تک نہ تھے سارا دن بیٹھے رہتے دو آبہ بند پر اور رات کو بھوکے پیاسے سو جاتے۔
حالت تشنگی میں سیلاب کا آلودہ اور مضر صحت پانی پیتے تھے معروف شاعر محترم بلال بزمی کا کہنا تھا کہ وہ ڈی سی اور مظفر گڑھ سمیت متعدد اعلیٰ ضلعی اتھارٹیز (حکام) کے پاس گیا کسی نے ہماری بے بسی اور تباہی کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور کسی بھی قسم کی کوئی مالی امداد نہیں کی گئی بلال بزمی کا کہنا تھا کہ میری بوڑھی ماں میرے بڑے بھائی اور میرا مکان دریا و سیلاب برد ہوا اور آج ہم بے
خانماں کھلے آسمان تلے پڑے ہیں سردیوں کے موسم میں چھت تک نہیں ہے کہ جو جاڑے کے موسم میں کڑکتی سردیوں سے تحفظ دے بلال بزمی نے کہا کہ وہ سرائیکی شاعر ہیں سرائیکی قوم کو شعور کی دولت بانٹتے ہیں سرائیکی قومیتی شعور اجاگر کرنے کی پاداش میں انہیں سخت سزا دی جارہی ہے محکمہ ریونیو کا عملہ دیئے گئے مخصوص اہدف کی روشنی میں رپورٹس بنا رہا ہے مستحقین سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے دوران گفتگو بلال بزمی پر رقت کا عالم طاری ہوگیا اور گفتگو کا اختتام اپنے سرائیکی بند پر کیا ۔ ترٹیا بن ہے یار دو آبے دا ساڈے دل دا ہر ارمان لڑھیے ہائی پانی اتنا تیز یارو ساڈی جھوک دا ہر مکان لڑھیے ریہیا ککھ نئیں ساڈے موضے وچ ایہ کر ساڈے نقصان لڑھیے اساں بزمی سنبھل وی نئیں سگیے ساڈا قیمتی ڈھیرسامان لڑھیے