تحریر : شاہ بانو میر کچھ لوگ خوبیوں کا مرقع ہوتے ہیں کہ آپ کھوجتے رہتے ہیں اور ناکام ہو جاتے ہیں نیک والدین کی اچھی اولاد جو ان کیلئے صدقہ جاریہ بننے کا سبب بنتی ہے اس کے ساتھ ساتھ بہترین تعلیم و تربیت زبان پر مکمل قابو دھیما انداز بیاں مختصر کلام شائستگی نرمی مٹھاس ادب احترام سب سے بڑی خوبی اخلاص سادگی ابھی تک جتنا وقت شاز ملک کے ساتھ گزرا جتنا رابطہ رہا وہ یہی چند خوبیاں محسوس کروا سکا – کسی سوچ میں بالکل کسی افسانوی کردار کی طرح کھوئی ہوئی اور کچھ کھوجتی ہوئی تلاش کرتی ہوئی مضطرب بیقرار جب حساس جذبوں کو برداشت نہیں کر سکتیں تو تحریر کی صورت موتی ابھرتے ہیں ان کی چمک ان کی ہئیت ان کی تراش خراش اس قدر مکمل اور جامع ہوتی ہے کہ مجھے اپنی کم علمی کا ہر بار اعتراف کرنا پڑتا ہے – ایک بار پڑہتی ہوں تو سمجھ نہیں پاتی دوبارہ خود کو مجتمع کرتی ہوں پھر پڑھتی ہوں تو الحمد للہ کچھ گیان کے موتی دامن میں دکھائی دیتے ہیں دیارغیر میں جہاں سچائی اور سچا کام بہت کم لوگ کر رہے ہیں
ان کیلئے شاز ملک کسی نعمت سے کم نہیں ہیں بہترین استاذہ اکرام سے ملی ہوئی رہنمائی اور ان کی با ادب شخصیت نے جس طرح ان کے اسباق کو جذب کیا ہے -وہ سچی تاثیر بن کر تحریرکو پڑھتے ہی روح تک جا پہنچتے ہیں اور بہت دیر تک آپ ان کو محسوس کرتے ہیں – شاہ بانو میر ادب اکیڈمی پر اللہ پاک کی خاص عنایت ہے کہ اس کو ایک سے ایک بڑھ کربیش قیمت دماغ عطا کئے جسموں کی بڑہتی ہوئی تعداد میں دماغوں کی قابل رشک تعداد بلاشبہ اللہ پاک کا خاص الخاص کرم ہے – شاز ملک آپ سب کیلئے اجنبی نام نہیں ہے ان کی کئی تحریریں معروف بین القوامی ویب سائٹس پر شائع ہو چکیں جن کو سیکڑوں کی تعداد میں شئیر بھی کیا گیا اور یہی ان کی تحریر کی کامیابی کی ضمانت ہے – ہم لوگ دیار غیر میں رہتے ہیں ہرمتحرک رہنے والا انسان ملک کیلئے دین کیلئے بساط بھر کوشش کر رہا ہے -طریقہ کار ہرایک کا اپنا اپنا ہے جس پر کسی کو بھی اعتراض کا حق نہیں ہونا چاہیے-
لیکن اداروں کو قائم مشکل سے کیا جائے اور پھر ان اداروں پر نگاہ جمائی جائے کہ انہیں کس طرح ختم کیا جائے قابل افسوس سوچ ہے – شاز ملک ذہین اور دور رس سوچ کی مالکہ ہیں میری نرم سوچ کو بھی ایسی طاقت فراہم کرتی ہیں کہ اب مضبوط فیصلے کرنے آ رہے ہیں -خوش نصیبی ہوتی ہے ادارے کی کہ اس کے ساتھ کام کرنے والے لوگ بہت مخلص اور اس ادارے کو اپنا ادارہ سمجھ کر اسکی فکر کریں – گو شاز ملک دیر سے آئی ہیں لیکن اس طرح سب میں گھل مل گئی ہیں کہ سب کی یکجہتی ہم آہنگی گفتگو میں باہمی احترام عزت دیکھ کر سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہکون نیا ہے کون پرانا زبردست ہم آہنگی اور ایک سوچ پر سب کی سب خواتین یکساں دین و دنیا کیلئے انشاءاللہ بہترین کام کرنا ہے شاز ملک اکیڈمی میں آنے سے پہلے لکھتی تھیں کتابیں اب شائع ہوئی ہیں-
ALLAH
انشاءاللہ جلد تقریب رونمائی شاہ بانو میر ادب اکیڈمی کی جانب سے کی جائے گی – ان کی دو کتابیں “” روح آشنا “” “” دل سمندر تو ذات صحرا “”روح آشنا ناول ہے جس میں دو کہانیاں ایک جیسے کامیاب ردہم سے چل رہی ہیں – دل سمندر اور ذات صحرا پر انشاءاللہ کسی اور بہترین شاعرہ کا تبصرہ حاصل کرنے کی کوشش ہوگی – کیونکہ شاعری کا ذوق اللہ پاک نے عطا نہیں کیا اور میں چاہتی ہوں کہ جتنا خوبصورت کلام یہ تحریر کرتی ہیں اس کا مکمل حق ادا ہو – روح آشنا ناول ہے جس میں دو لو اسٹوریز ہیں لیکن جس بات نے حیرت میں ڈالا اپنی ذات کی نفاست تہذیب تمیز احتیاط اور محفوظ انداز وہ تحریر میں شروع سے آخر تک دیکھنے کو ملا – موجودہ دور جسے ادبی لوگ بھی تسلیم کرتے کہ”” بے ادبی”” کا دور ہے ہر شعبہ بشمول ادب اس قدر”” بے ادب”” کر دیا گیا ہے کہ خُدا کی پناہ ایسے میں ایسا نفیس انداز کیا کامیاب ہوگا؟ پاکستان کے معروف ادارے نے ان کی کتابوں کو شائع کیا ہے اور پڑھنے کے بعد اس پریہ تبصرہ کیا کہ واقعی شاز ملک خداداد صلاحیتوں سے مالا مال ہیں اور ناول ان کے خوبصورت حساس ذہن کی عمدہ کاوش ہے
ان کی سوچ کی طرح اس ناول میں تصوف کا رنگ نمایاں رہا اور محتاط انداز میں جزبوں کو رشتوں پر نچھاور ہوتے دیکھا -پڑھتے ہوئے انداذہ ہوجاتا ہے کہ یہ کسی عام خاتون نے نہیں لکھا بلکہ اس میں تائید ربی بھی شامل ہے – بزرگان دین کو ساتھ لے کر چلنا ان کی درویش صفت طبیعت کو موجودہ تیز رفتار دور مین بھی مستقل کامیاب دکھانا انہی کا خاصہ ہے -آجکل تو حقیقی زندگی میں لڑکا لڑکی دونوں جانب کے والدین کی موجودگی میں عدالت سے شادی کی کلئیرنس لیتے ہیں عدالت سے ہی برقعہ پوش لڑکی اور اس کے پیچھے اسکا شوہر دوڑ لگا کر رکشہ پکڑ کر ان سے دور جاتے خود دیکھے ایسے ماحول میں جب ہماری مخصوص روایات دم توڑ رہی ہیں ایک مکمل روایتی خاندان جن کا اثاثہ محفوظ ہے آج بھی ان پر لکھنا بہت مشکل کام ہے
مگر تحریر میں حروف کے پروئے جانے کا خوبصورت معاملہ ویسا ہی ہے جیسا ان کے آرٹیکلز میں دکھائی دیتا ہے روحانیت اور عشق حقیقی کو عشق مجازی پر کہیں حاوی نہیں ہونے دیا ناول کے دو جوڑے ہیں اور دونوں کے دونوں ہی ایک دوسرے کو پانے میں ناکام رہے – اس نے آزردہ سا کیا -دونوں کے دونوں دور ہوتے ہوئے بھی ایک ساتھ جہاں سے گزر گئے -رشتوں کی مضبوطی اور تعلقات کی کمزوری ازروئے شریعت انتہائی خوبصورتی سے واضح کی گئی متمول پرانی روایات کا حامل خاندان بھی ہے اور عام سا گھر بھی دکھایا گیا- ایک سکھ کو کیسے اللہ پاک ہدایت کی طرف لاتے اور وہ مسلمان ہو کربھی اپنی محبت نہیں پا سکتا یہ سب استعاروں میں سمجھایا گیا
Education
مہذب سلجھے ہوئے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کیلئے پسندیدگی کا بہترین تناسب قائم کرے گا یہ ناول لیکن بڑی تعداد میں عام پاکستانی لوگ جو عام رویوں میں اب بے حسی سفاکی اور بد تمیزی (معذرت کے ساتھ)شور شرابہ اور بے ہنگم موسیقی کے عادی لوگ اس کو نہ سمجھ سکیں گے اور نہ سمجھے تو سراہیں گے کیسے؟ اچھے اعلیٍ معیاری سوچ کے حامل مصنفین جو اب شائد ڈھونڈو انہیں چراغ رخٍ زیبا لے کر والی بات ہے ان کی ایسی تحریروں کیلئے بڑی تعداد میں پڑھنے والے وقت کی نفسا نفسی اور بھیڑ چال نے چھین لئے شاز ملک کی سوچ میں ڈھلی عملی انداز میں پیش کی جانے والی یہ تحریر باذوق اور با ہوش با شعور لوگوں کیلئے ہے -ان پر اللہ پاک کی خاص عنایت ہے خاص کرم ہے جو عطا ہوتی ہے وہ لاجواب بے مثال ہوتی ہے-
اللہ پاک ان کے قلم کو مزید تاثیر مزید وسعت اور مزید پُراثر کرے کہ ان کی عمدہ سوچ اللہ اور نبی پاک سے محبتوں کا ذخیرہ ہم سب کو بھی مائل کرے اور ایسی سوچ عطا فرمائے آمین شاز ملک کا کہنا کہ انہیں ہمیشہ شاہ بانو میر ادب اکیڈمی کے ساتھ ہی رہنا ہے کیونکہ یہ ان کا ادارہ ہے سب خواتین کا ادارہ ہے – یہ کسی ایک خاتون کا نہیں – ہر باعمل سنجیدہ ملک و قوم کیلئے کچھ کر گزرنے والی خواتین کا ادارہ ہے جو صرف خواتین ہی چلائیں گی اور وہی اسے مزید کامیاب بنائیں گی – ان کی سوچ کی وجہ ہے ادارے سے وابستہ خوبصورت پیاری پرخلوص خواتین ہیں جن کا ثانی کوئی نہیں ہے
ایک ہی جگہہ پرہم خیال گروپ کا مل جانا اس دور میں خوش نصیبی ہے انشاءااللہ جلد ہی شاز ملک صاحبہ کی کتابوں کی تقریب رونمائی کی تقریب منعقد کی جائے گی حسب روایت سادگی اور خواتین کے ہمراہ شاز ملک بلاشبہ آپ ان میں سے ہیں جو ادارے میں آکر ادارے کی شناخت کو مزید کئی گنا زیادہ بڑھا دیتے ہیں مشکل وقت کی بہترین ساتھی ہمدرد اور مضبوط سوچ کی مالک آپ سب پاکستان میں ہیں دیار غیر میں ان کا ناول ضرور پڑہیں ہر بہترین بک اسٹال سے دستیاب ہے فخر ہوگا سب کو کہ دیار غیر میں ایسے حقیقی تصوف کے مالک لوگ بھی موجود ہیں -اللہ کرے زور قلم اور زیادہ آمین
تبصرہ
Posted on January 2, 2016 By Mohammad Waseem کالم
Shortlink:
Quran Teacher
تحریر : شاہ بانو میر
کچھ لوگ خوبیوں کا مرقع ہوتے ہیں کہ آپ کھوجتے رہتے ہیں اور ناکام ہو جاتے ہیں نیک والدین کی اچھی اولاد جو ان کیلئے صدقہ جاریہ بننے کا سبب بنتی ہے اس کے ساتھ ساتھ بہترین تعلیم و تربیت زبان پر مکمل قابو دھیما انداز بیاں مختصر کلام شائستگی نرمی مٹھاس ادب احترام سب سے بڑی خوبی اخلاص سادگی ابھی تک جتنا وقت شاز ملک کے ساتھ گزرا جتنا رابطہ رہا وہ یہی چند خوبیاں محسوس کروا سکا – کسی سوچ میں بالکل کسی افسانوی کردار کی طرح کھوئی ہوئی اور کچھ کھوجتی ہوئی تلاش کرتی ہوئی مضطرب بیقرار جب حساس جذبوں کو برداشت نہیں کر سکتیں تو تحریر کی صورت موتی ابھرتے ہیں ان کی چمک ان کی ہئیت ان کی تراش خراش اس قدر مکمل اور جامع ہوتی ہے کہ مجھے اپنی کم علمی کا ہر بار اعتراف کرنا پڑتا ہے – ایک بار پڑہتی ہوں تو سمجھ نہیں پاتی دوبارہ خود کو مجتمع کرتی ہوں پھر پڑھتی ہوں تو الحمد للہ کچھ گیان کے موتی دامن میں دکھائی دیتے ہیں دیارغیر میں جہاں سچائی اور سچا کام بہت کم لوگ کر رہے ہیں
ان کیلئے شاز ملک کسی نعمت سے کم نہیں ہیں بہترین استاذہ اکرام سے ملی ہوئی رہنمائی اور ان کی با ادب شخصیت نے جس طرح ان کے اسباق کو جذب کیا ہے -وہ سچی تاثیر بن کر تحریرکو پڑھتے ہی روح تک جا پہنچتے ہیں اور بہت دیر تک آپ ان کو محسوس کرتے ہیں – شاہ بانو میر ادب اکیڈمی پر اللہ پاک کی خاص عنایت ہے کہ اس کو ایک سے ایک بڑھ کربیش قیمت دماغ عطا کئے جسموں کی بڑہتی ہوئی تعداد میں دماغوں کی قابل رشک تعداد بلاشبہ اللہ پاک کا خاص الخاص کرم ہے – شاز ملک آپ سب کیلئے اجنبی نام نہیں ہے ان کی کئی تحریریں معروف بین القوامی ویب سائٹس پر شائع ہو چکیں جن کو سیکڑوں کی تعداد میں شئیر بھی کیا گیا اور یہی ان کی تحریر کی کامیابی کی ضمانت ہے – ہم لوگ دیار غیر میں رہتے ہیں ہرمتحرک رہنے والا انسان ملک کیلئے دین کیلئے بساط بھر کوشش کر رہا ہے -طریقہ کار ہرایک کا اپنا اپنا ہے جس پر کسی کو بھی اعتراض کا حق نہیں ہونا چاہیے-
لیکن اداروں کو قائم مشکل سے کیا جائے اور پھر ان اداروں پر نگاہ جمائی جائے کہ انہیں کس طرح ختم کیا جائے قابل افسوس سوچ ہے – شاز ملک ذہین اور دور رس سوچ کی مالکہ ہیں میری نرم سوچ کو بھی ایسی طاقت فراہم کرتی ہیں کہ اب مضبوط فیصلے کرنے آ رہے ہیں -خوش نصیبی ہوتی ہے ادارے کی کہ اس کے ساتھ کام کرنے والے لوگ بہت مخلص اور اس ادارے کو اپنا ادارہ سمجھ کر اسکی فکر کریں – گو شاز ملک دیر سے آئی ہیں لیکن اس طرح سب میں گھل مل گئی ہیں کہ سب کی یکجہتی ہم آہنگی گفتگو میں باہمی احترام عزت دیکھ کر سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہکون نیا ہے کون پرانا زبردست ہم آہنگی اور ایک سوچ پر سب کی سب خواتین یکساں دین و دنیا کیلئے انشاءاللہ بہترین کام کرنا ہے شاز ملک اکیڈمی میں آنے سے پہلے لکھتی تھیں کتابیں اب شائع ہوئی ہیں-
ALLAH
انشاءاللہ جلد تقریب رونمائی شاہ بانو میر ادب اکیڈمی کی جانب سے کی جائے گی – ان کی دو کتابیں “” روح آشنا “” “” دل سمندر تو ذات صحرا “”روح آشنا ناول ہے جس میں دو کہانیاں ایک جیسے کامیاب ردہم سے چل رہی ہیں – دل سمندر اور ذات صحرا پر انشاءاللہ کسی اور بہترین شاعرہ کا تبصرہ حاصل کرنے کی کوشش ہوگی – کیونکہ شاعری کا ذوق اللہ پاک نے عطا نہیں کیا اور میں چاہتی ہوں کہ جتنا خوبصورت کلام یہ تحریر کرتی ہیں اس کا مکمل حق ادا ہو – روح آشنا ناول ہے جس میں دو لو اسٹوریز ہیں لیکن جس بات نے حیرت میں ڈالا اپنی ذات کی نفاست تہذیب تمیز احتیاط اور محفوظ انداز وہ تحریر میں شروع سے آخر تک دیکھنے کو ملا – موجودہ دور جسے ادبی لوگ بھی تسلیم کرتے کہ”” بے ادبی”” کا دور ہے ہر شعبہ بشمول ادب اس قدر”” بے ادب”” کر دیا گیا ہے کہ خُدا کی پناہ ایسے میں ایسا نفیس انداز کیا کامیاب ہوگا؟ پاکستان کے معروف ادارے نے ان کی کتابوں کو شائع کیا ہے اور پڑھنے کے بعد اس پریہ تبصرہ کیا کہ واقعی شاز ملک خداداد صلاحیتوں سے مالا مال ہیں اور ناول ان کے خوبصورت حساس ذہن کی عمدہ کاوش ہے
ان کی سوچ کی طرح اس ناول میں تصوف کا رنگ نمایاں رہا اور محتاط انداز میں جزبوں کو رشتوں پر نچھاور ہوتے دیکھا -پڑھتے ہوئے انداذہ ہوجاتا ہے کہ یہ کسی عام خاتون نے نہیں لکھا بلکہ اس میں تائید ربی بھی شامل ہے – بزرگان دین کو ساتھ لے کر چلنا ان کی درویش صفت طبیعت کو موجودہ تیز رفتار دور مین بھی مستقل کامیاب دکھانا انہی کا خاصہ ہے -آجکل تو حقیقی زندگی میں لڑکا لڑکی دونوں جانب کے والدین کی موجودگی میں عدالت سے شادی کی کلئیرنس لیتے ہیں عدالت سے ہی برقعہ پوش لڑکی اور اس کے پیچھے اسکا شوہر دوڑ لگا کر رکشہ پکڑ کر ان سے دور جاتے خود دیکھے ایسے ماحول میں جب ہماری مخصوص روایات دم توڑ رہی ہیں ایک مکمل روایتی خاندان جن کا اثاثہ محفوظ ہے آج بھی ان پر لکھنا بہت مشکل کام ہے
مگر تحریر میں حروف کے پروئے جانے کا خوبصورت معاملہ ویسا ہی ہے جیسا ان کے آرٹیکلز میں دکھائی دیتا ہے روحانیت اور عشق حقیقی کو عشق مجازی پر کہیں حاوی نہیں ہونے دیا ناول کے دو جوڑے ہیں اور دونوں کے دونوں ہی ایک دوسرے کو پانے میں ناکام رہے – اس نے آزردہ سا کیا -دونوں کے دونوں دور ہوتے ہوئے بھی ایک ساتھ جہاں سے گزر گئے -رشتوں کی مضبوطی اور تعلقات کی کمزوری ازروئے شریعت انتہائی خوبصورتی سے واضح کی گئی متمول پرانی روایات کا حامل خاندان بھی ہے اور عام سا گھر بھی دکھایا گیا- ایک سکھ کو کیسے اللہ پاک ہدایت کی طرف لاتے اور وہ مسلمان ہو کربھی اپنی محبت نہیں پا سکتا یہ سب استعاروں میں سمجھایا گیا
Education
مہذب سلجھے ہوئے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کیلئے پسندیدگی کا بہترین تناسب قائم کرے گا یہ ناول لیکن بڑی تعداد میں عام پاکستانی لوگ جو عام رویوں میں اب بے حسی سفاکی اور بد تمیزی (معذرت کے ساتھ)شور شرابہ اور بے ہنگم موسیقی کے عادی لوگ اس کو نہ سمجھ سکیں گے اور نہ سمجھے تو سراہیں گے کیسے؟ اچھے اعلیٍ معیاری سوچ کے حامل مصنفین جو اب شائد ڈھونڈو انہیں چراغ رخٍ زیبا لے کر والی بات ہے ان کی ایسی تحریروں کیلئے بڑی تعداد میں پڑھنے والے وقت کی نفسا نفسی اور بھیڑ چال نے چھین لئے شاز ملک کی سوچ میں ڈھلی عملی انداز میں پیش کی جانے والی یہ تحریر باذوق اور با ہوش با شعور لوگوں کیلئے ہے -ان پر اللہ پاک کی خاص عنایت ہے خاص کرم ہے جو عطا ہوتی ہے وہ لاجواب بے مثال ہوتی ہے-
اللہ پاک ان کے قلم کو مزید تاثیر مزید وسعت اور مزید پُراثر کرے کہ ان کی عمدہ سوچ اللہ اور نبی پاک سے محبتوں کا ذخیرہ ہم سب کو بھی مائل کرے اور ایسی سوچ عطا فرمائے آمین شاز ملک کا کہنا کہ انہیں ہمیشہ شاہ بانو میر ادب اکیڈمی کے ساتھ ہی رہنا ہے کیونکہ یہ ان کا ادارہ ہے سب خواتین کا ادارہ ہے – یہ کسی ایک خاتون کا نہیں – ہر باعمل سنجیدہ ملک و قوم کیلئے کچھ کر گزرنے والی خواتین کا ادارہ ہے جو صرف خواتین ہی چلائیں گی اور وہی اسے مزید کامیاب بنائیں گی – ان کی سوچ کی وجہ ہے ادارے سے وابستہ خوبصورت پیاری پرخلوص خواتین ہیں جن کا ثانی کوئی نہیں ہے
ایک ہی جگہہ پرہم خیال گروپ کا مل جانا اس دور میں خوش نصیبی ہے انشاءااللہ جلد ہی شاز ملک صاحبہ کی کتابوں کی تقریب رونمائی کی تقریب منعقد کی جائے گی حسب روایت سادگی اور خواتین کے ہمراہ شاز ملک بلاشبہ آپ ان میں سے ہیں جو ادارے میں آکر ادارے کی شناخت کو مزید کئی گنا زیادہ بڑھا دیتے ہیں مشکل وقت کی بہترین ساتھی ہمدرد اور مضبوط سوچ کی مالک آپ سب پاکستان میں ہیں دیار غیر میں ان کا ناول ضرور پڑہیں ہر بہترین بک اسٹال سے دستیاب ہے فخر ہوگا سب کو کہ دیار غیر میں ایسے حقیقی تصوف کے مالک لوگ بھی موجود ہیں -اللہ کرے زور قلم اور زیادہ آمین
Shahbano Mir Academy
تحریر : شاہ بانو میر
by Mohammad Waseem
Mohammad Waseem - Editor at GeoURDU.com Pakistan