تحریر : روہیل اکبر عمران خان کی گذشتہ روز صحافی کو غصے میں جھاڑ پلانا ابھی انکے سیاسی طور پر بالغ نہ ہونے کی دلیل ہے اچھے اور سلجھے ہوئے سیاستدان کا کام ہے کہ ہر تلخ سوال کا جواب بھی اس انداز میں دے کہ اسکا جواب تاریخ میں امر ہو جائے یا وہ سوال اپنی موت آپ مر جائے جبکہ کچھ سیاستدان تلخ سوالوں پر اپنے تلخ رویوں کی بدولت ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں اور ایسا رویہ انکی طرف سے دیکھنے میں آتا ہے جو حادثاتی طور پر یا خاندانی طور پر سیاست میں آدھمکے ہوں۔
جبکہ گلی کوچوں کی خاک چھانتے چھانتے سیاستدان بننے والا شخص کبھی بھی کسی کی تلخ بات پر آپے سے باہر نہیں ہوتا بلکہ موقعہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنا دفاع کرلیتا ہے ہمارا سب سے بڑا المیہ بھی یہی رہا ہے کہ ہمیں آج تک اچھا سیاستدان نہیں مل سکا جو پوری قوم کی انگلی پکڑ کر ترقی کے راستے پر چل پڑتا۔
قائد اعظم کو بھی اپنی شادی کے حوالہ سے سخت تنقید کا سامنا تھا جبکہ علماء کرام نے انکے خلاف فتوے بھی جاری کررکھے تھے مگر انہوں نے کبھی بھی اپنی پیشانی پر بل نہیں ڈالا تھا بلکہ تمام تر مشکلات کے باوجود انہوں نے اس پاکستان کی بنیاد رکھ دی جسے آج ہمارے غصیلے اور جوشیلے سیاستدان نیا پاکستان بنانے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ وہ خود اپنے پرانے والے عمران خان کو نئے عمران خان میں تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے عمران خان جب کھیل کے میدان میں تھے اس وقت بھی انکا جذباتی پن آخری حدوں کو چھو رہا ہوتا تھا اور غصہ ہر وقت ا نکی ناک پر ہوتا تھا اللہ کی خاص مہربانی سے پاکستانی ٹیم انکی قیادت میں ورلڈ کپ جیت گئی تو انکے غرور اور تکبر میں مزید اضافہ ہو گیا۔
جسکے بعد انہوں نے سیاست میں قدم رکھا تو تب بھی عوام سے دور ہی رہے اسی دور میں کچھ لوگوں نے عمران خان کووزیراعظم کا لالچ دیکر اپنے لیے استعمال کیا اور بعد میں سب نو دو گیارہ ہوگئے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان کے ساتھ مفاد پرستوں کا ٹولہ اکٹھا ہونا شروع ہوگیا جو ڈرائنگ روم کی سیاست کے ماہر مانے جاتے ہیں اور جنکی جیپ میں ہر وقت ایم پی اے اور ایم این اے کی سیٹ فارغ پڑی رہتی ہے کیونکہ انکے مزارع ووٹراتنی تعداد میں ہیں کہ کوئی اور وہاں سے جیت ہی نہیں سکتا اس لیے وہ بھی سیاست کے فرعون بنے ہوئے ہیں اورانہی کہ وجہ سے وہی فرعونیت عمران خان میں عود آئی ہے۔
پاکستان کی سیاست میں ورکروں سے پیار کا جو عنصر ذوالفقار علی بھٹو میں موجود تھا وہ کسی اور سیاستدان میں نہیں ہے عمران خان سے تو صحافی نے انکی اور ریحام خان کی طلاق کی وجہ ہی دریافت کی تھی جسے وہ نو کمنٹس کہہ کر بات ختم کرسکتے تھے مگر انکے جذباتی پن نے اس معاملہ کو بگاڑ دیا جبکہ ذوالفقار علی بھٹوایک جلسہ میں اپنی تقریر کررہے تھے تو کسی طرف سے لوگوں نے جوتے ہاتھ میں پکڑ کر فضا میں لہرائے جس پر ذوالفقار علی بھٹو نے بجائے اسکے کہ ان لوگوں پر خفا ہوتے یا اپنے بندوں کو کہتے کہ ان جوتے لہرانے والوں کی انہی کے جوتوں کے ساتھ چھترول کردو کی بجائے انہوں نے جوتے اوپر اٹھتے دیکھ فورا کہا کہ ہاں مجھے معلوم ہے کہ جوتے بہت مہنگے ہوچکے ہیں۔
Reham Khan and Imran Khan
مہنگائی بھی زیادہ ہے انکے اس تاریخی جملے سے بات کہاں سے کہاں جا پہنچی جبکہ عمران خان کے ایک تلخ جملے سے بھی بات کہاں سے کہاں تک جائیگی اسکا اندازہ عمران خان اور انکے ہمنواؤں کو نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ سب حادچاتی طور پر سیاستدان بنے ہیں کوئی کسی جاگیر دار کا بیٹا ہے تو کوئی کسی سرمایہ دار کا ،کوئی انگریزوں کا نوازا ہوا ہے تو کوئی عوام کاٹھکرایا ہوا ہے اسی لیے تو کہتے ہیں کہ کمال یہ نہیں کہ کوئی شخص پیدائشی طور پر عظیم پیدا ہو بلکہ کمال تو یہ ہے کہ وہ پیدائشی طور پر ایک عام انسانی حیثیت سے پیدا ہوا ہو مگر اپنے عمل سے وہ اپنے آپ کو عظمت کے اعلی مقام پر پہنچا دے جبکہ جو سیاستدان ہے اسکا ہر عمل عوام کے لیے مشعل راہ ہوتا ہے عوام اپنے پسندیدہ سیاستدان کی نقل کرتے ہیں انکی راہ پر چل کر کامیاب ہونا چاہتے ہیں اگر عوام کا محبوب سیاستدان غصے والا، بدمزاج،بدتمیز اور بات بات پر بھڑکنے والا ہوگا تو اسکے فالوورز بھی ویسے ہی ہونگے اور جس معاشرے میں سیاسی رہنماؤں اور انکے ماننے والوں میں عدم برداشت کا ماحول ہوگا وہاں نہ ترقی ہوگی نہ خوشحالی آئے گی اور نہ ہی تھانہ کچہری کی سیاست ختم ہوسکے گی۔
اگر ہم نے اپنے آپ کو بطور سیاستدان اور ملک وقوم کو آگے لیکر چلنا ہے تو پھر ہمیں برداشت کا مادہ بھی اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے تب ہی ہم اچھے سیاستدان ثابت ہوسکیں گے اور جو اچھا سیاستدان ہوتا ہے اسکی کوئی بھی چیز ذاتی نہیں ہوتی کیونکہ اس نے عوام کے لیے کام کرنا ہوتا ہے اور جو عوام کے لیے کچھ نہیں کرسکتا وہ مفاد پرست ہوتا ہے قیام پاکستان سے لیکر آج تک مفاد پرستوں کا ہی پاکستان پر قبضہ رہا ہے جسکی وجہ سے ملک ترقی کرسکا۔
نہ ہی قوم جہالت کی دلدل سے باہر نکل سکی اگر تھوڑی بہت ملک نے ترقی کی ہے تو میاں نواز شریف کے دور میں ہوئی ہے جنہوں نے موٹروے سمیت اہم کام کیے جبکہ اب میاں شہباز شریف توانائی کے منصوبوں پر تیزی سے کا م کررہے ہیں اس لیے خان صاحب کو بھی چاہیے کہ غصہ کرنے کی بجائے جذبات کو کنٹرول میں رکھ کر معاملہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مناسب سمجھیں تو جواب یدیں ورنہ نو کمنٹس کہہ کر جان چھڑوا لیں مگر ایک بات اٹل ہے کہ خان صاحب کی پریشانیاں اب وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مزید بڑھیں گی۔
نو کمنٹس
Posted on November 5, 2015 By Majid Khan کالم
Shortlink:
Imran Khan
تحریر : روہیل اکبر
عمران خان کی گذشتہ روز صحافی کو غصے میں جھاڑ پلانا ابھی انکے سیاسی طور پر بالغ نہ ہونے کی دلیل ہے اچھے اور سلجھے ہوئے سیاستدان کا کام ہے کہ ہر تلخ سوال کا جواب بھی اس انداز میں دے کہ اسکا جواب تاریخ میں امر ہو جائے یا وہ سوال اپنی موت آپ مر جائے جبکہ کچھ سیاستدان تلخ سوالوں پر اپنے تلخ رویوں کی بدولت ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں اور ایسا رویہ انکی طرف سے دیکھنے میں آتا ہے جو حادثاتی طور پر یا خاندانی طور پر سیاست میں آدھمکے ہوں۔
جبکہ گلی کوچوں کی خاک چھانتے چھانتے سیاستدان بننے والا شخص کبھی بھی کسی کی تلخ بات پر آپے سے باہر نہیں ہوتا بلکہ موقعہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنا دفاع کرلیتا ہے ہمارا سب سے بڑا المیہ بھی یہی رہا ہے کہ ہمیں آج تک اچھا سیاستدان نہیں مل سکا جو پوری قوم کی انگلی پکڑ کر ترقی کے راستے پر چل پڑتا۔
قائد اعظم کو بھی اپنی شادی کے حوالہ سے سخت تنقید کا سامنا تھا جبکہ علماء کرام نے انکے خلاف فتوے بھی جاری کررکھے تھے مگر انہوں نے کبھی بھی اپنی پیشانی پر بل نہیں ڈالا تھا بلکہ تمام تر مشکلات کے باوجود انہوں نے اس پاکستان کی بنیاد رکھ دی جسے آج ہمارے غصیلے اور جوشیلے سیاستدان نیا پاکستان بنانے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ وہ خود اپنے پرانے والے عمران خان کو نئے عمران خان میں تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے عمران خان جب کھیل کے میدان میں تھے اس وقت بھی انکا جذباتی پن آخری حدوں کو چھو رہا ہوتا تھا اور غصہ ہر وقت ا نکی ناک پر ہوتا تھا اللہ کی خاص مہربانی سے پاکستانی ٹیم انکی قیادت میں ورلڈ کپ جیت گئی تو انکے غرور اور تکبر میں مزید اضافہ ہو گیا۔
جسکے بعد انہوں نے سیاست میں قدم رکھا تو تب بھی عوام سے دور ہی رہے اسی دور میں کچھ لوگوں نے عمران خان کووزیراعظم کا لالچ دیکر اپنے لیے استعمال کیا اور بعد میں سب نو دو گیارہ ہوگئے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان کے ساتھ مفاد پرستوں کا ٹولہ اکٹھا ہونا شروع ہوگیا جو ڈرائنگ روم کی سیاست کے ماہر مانے جاتے ہیں اور جنکی جیپ میں ہر وقت ایم پی اے اور ایم این اے کی سیٹ فارغ پڑی رہتی ہے کیونکہ انکے مزارع ووٹراتنی تعداد میں ہیں کہ کوئی اور وہاں سے جیت ہی نہیں سکتا اس لیے وہ بھی سیاست کے فرعون بنے ہوئے ہیں اورانہی کہ وجہ سے وہی فرعونیت عمران خان میں عود آئی ہے۔
پاکستان کی سیاست میں ورکروں سے پیار کا جو عنصر ذوالفقار علی بھٹو میں موجود تھا وہ کسی اور سیاستدان میں نہیں ہے عمران خان سے تو صحافی نے انکی اور ریحام خان کی طلاق کی وجہ ہی دریافت کی تھی جسے وہ نو کمنٹس کہہ کر بات ختم کرسکتے تھے مگر انکے جذباتی پن نے اس معاملہ کو بگاڑ دیا جبکہ ذوالفقار علی بھٹوایک جلسہ میں اپنی تقریر کررہے تھے تو کسی طرف سے لوگوں نے جوتے ہاتھ میں پکڑ کر فضا میں لہرائے جس پر ذوالفقار علی بھٹو نے بجائے اسکے کہ ان لوگوں پر خفا ہوتے یا اپنے بندوں کو کہتے کہ ان جوتے لہرانے والوں کی انہی کے جوتوں کے ساتھ چھترول کردو کی بجائے انہوں نے جوتے اوپر اٹھتے دیکھ فورا کہا کہ ہاں مجھے معلوم ہے کہ جوتے بہت مہنگے ہوچکے ہیں۔
Reham Khan and Imran Khan
مہنگائی بھی زیادہ ہے انکے اس تاریخی جملے سے بات کہاں سے کہاں جا پہنچی جبکہ عمران خان کے ایک تلخ جملے سے بھی بات کہاں سے کہاں تک جائیگی اسکا اندازہ عمران خان اور انکے ہمنواؤں کو نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ سب حادچاتی طور پر سیاستدان بنے ہیں کوئی کسی جاگیر دار کا بیٹا ہے تو کوئی کسی سرمایہ دار کا ،کوئی انگریزوں کا نوازا ہوا ہے تو کوئی عوام کاٹھکرایا ہوا ہے اسی لیے تو کہتے ہیں کہ کمال یہ نہیں کہ کوئی شخص پیدائشی طور پر عظیم پیدا ہو بلکہ کمال تو یہ ہے کہ وہ پیدائشی طور پر ایک عام انسانی حیثیت سے پیدا ہوا ہو مگر اپنے عمل سے وہ اپنے آپ کو عظمت کے اعلی مقام پر پہنچا دے جبکہ جو سیاستدان ہے اسکا ہر عمل عوام کے لیے مشعل راہ ہوتا ہے عوام اپنے پسندیدہ سیاستدان کی نقل کرتے ہیں انکی راہ پر چل کر کامیاب ہونا چاہتے ہیں اگر عوام کا محبوب سیاستدان غصے والا، بدمزاج،بدتمیز اور بات بات پر بھڑکنے والا ہوگا تو اسکے فالوورز بھی ویسے ہی ہونگے اور جس معاشرے میں سیاسی رہنماؤں اور انکے ماننے والوں میں عدم برداشت کا ماحول ہوگا وہاں نہ ترقی ہوگی نہ خوشحالی آئے گی اور نہ ہی تھانہ کچہری کی سیاست ختم ہوسکے گی۔
اگر ہم نے اپنے آپ کو بطور سیاستدان اور ملک وقوم کو آگے لیکر چلنا ہے تو پھر ہمیں برداشت کا مادہ بھی اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے تب ہی ہم اچھے سیاستدان ثابت ہوسکیں گے اور جو اچھا سیاستدان ہوتا ہے اسکی کوئی بھی چیز ذاتی نہیں ہوتی کیونکہ اس نے عوام کے لیے کام کرنا ہوتا ہے اور جو عوام کے لیے کچھ نہیں کرسکتا وہ مفاد پرست ہوتا ہے قیام پاکستان سے لیکر آج تک مفاد پرستوں کا ہی پاکستان پر قبضہ رہا ہے جسکی وجہ سے ملک ترقی کرسکا۔
نہ ہی قوم جہالت کی دلدل سے باہر نکل سکی اگر تھوڑی بہت ملک نے ترقی کی ہے تو میاں نواز شریف کے دور میں ہوئی ہے جنہوں نے موٹروے سمیت اہم کام کیے جبکہ اب میاں شہباز شریف توانائی کے منصوبوں پر تیزی سے کا م کررہے ہیں اس لیے خان صاحب کو بھی چاہیے کہ غصہ کرنے کی بجائے جذبات کو کنٹرول میں رکھ کر معاملہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مناسب سمجھیں تو جواب یدیں ورنہ نو کمنٹس کہہ کر جان چھڑوا لیں مگر ایک بات اٹل ہے کہ خان صاحب کی پریشانیاں اب وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مزید بڑھیں گی۔
Rohail Akbar
تحریر : روہیل اکبر
03466444144
by Majid Khan
Nasir Mehmood - Chief Editor at GeoURDU.com