لوجی ایک اور کمیشن کے قیام کا اعلان کر دیا گیا پاکستان میں حساس معاملات پر نہ جانے کتنے کمیشن بنے لیکن ان کی سفارشات اور نتیجہ کیا نکلا عوام ابھی تک لاعلم ہیں یہ بھی سناہے جومعاملہ کھوہ کھاتے ڈالنا مقصودہواس پر کمیشن بنا دیا جاتاہے کئی مرتبہ تو کمیشن پر کمیشن بھی بنانا پڑتاہے ویسے پاکستان میں کمیشن بڑا پرکشش لفظ ہے یہ لفظ سنتے ہی درجنوںکے منہ میں پانی آجاتاہے کرپٹ عناصر تو اس میں ڈبکیاں لگانے کیلئے ہمہ وقت تیاررہتے ہیں بہرحال عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں قرضوں سے متعلق کمیشن ۔۔ ٹی او آرز انکوائری ایکٹ 2017ء سے تحت قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے سینئر افسروں پر مشتمل ہوگا یہ کمیشن 2008ء سے 2018ء تک کے ملکی قرضوں سے متعلق تحقیقات کرے گا کمیشن اس بات کابھی جائزہ لے گا کہ کوئی مہنگا منصوبہ شروع نہ ہونے کے باوجود اتنے قرضے کیوں لئے گئے؟۔ ماضی میں آئی جی سمیت مختلف عہدوں پر تعینات رہنے والے شعیب سڈل کو انکوائری کمیشن کا سربراہ بنانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
یہ کمیشن تمام وزارتوں میں مالیاتی بے قاعدگیوں کی بھی تحقیقات کرے گا، کمیشن لوٹی گئی رقم قومی خزانے میں جمع کرانے کیلئے بھی کام کرے گا، کمیشن سرکاری خزانے کے ذاتی استعمال کی بھی تحقیقات کرے گا، غیر ملکی دوروں اور بیرون ملک علاج کے اخراجات کی بھی تحقیقات کی جائیں گی۔ کمیشن ذاتی رہائش گاہوں کیلئے سڑکوں کی تعمیر اور کیمپ آفسز کی بھی تحقیقات کرے گا۔ کمیشن عالمی شہرت کے حامل فرانزک آڈیٹر اور ماہرین کی خدمات حاصل کر سکے گا۔ اس کااعلان کرتے ہوئے نومولود وزیرِ اعظم نے ایک بارپھرکہاہے کہ میں اپوزیشن کی بلیک میلنگ میں نہیں آؤں گا۔ آج شور مچ رہا ہے کہ آصف زرداری جیل میں ہے مسلم لیگ اور پی پی اکٹھی ہو گئیں، دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو کرپٹ کہا کرتی تھیں۔ پی پی اور مسلم لیگ ن کی دونوں حکومتیں کرپشن کی وجہ سے ختم ہوئیں۔ مسلم لیگ ن نے اپنے دور میں آصف زرداری کو جیل میں ڈالا تھا۔ دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے۔ دو این آر اوز کی قیمت ملک نے ادا کی۔ میثاق جمہوریت سے دونوں جماعتوں نے طے کیا تھا ایک دوسرے کو مدت پوری کرنے دیں گے۔
پی پی اور مسلم لیگ ن نے کھل کر کرپشن کی۔ عمران خان نے کہا 2008ء کے بعد ملک پر جو قرضہ چڑھا اس کی وجہ دونوں جماعتوں کی کرپشن ہے۔ دونوں جماعتوں نے کرپشن کر کے پیسہ ہنڈی کے ذریعے باہر بھجوایا۔ مسلم لیگ ن نے دس سال میں چار کمپنیوں سے 30 کمپنیاں بنائیں۔ آصف زرداری کی ایک سو ارب روپے کی منی لانڈرنگ سامنے آئی۔ ایک خاتون 5 لاکھ ڈالرز باہر لے جاتے ہوئے پکڑی گئی وہ 75 بار باہر گئی۔ اقامے منی لانڈرنگ کے طریقے تھے۔ باہر سے پیسے بھیجنے والا کوئی فالودہ والا نکلا جس کے لئے جعلی اکاؤنٹس استعمال کئے گئے۔ ملک کا وزیراعظم دوسرے ملک کا اقامہ رکھتا ہے۔ پرویز مشرف نے نواز شریف کو این آر او دیکر سعودی عرب بھیجا ملک آج این آر او کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ پاکستانیوں کے دس ارب ڈالرز کے بیرون ملک بنک اکاؤنٹس ہیں۔ دس سال میں ملکی قرضہ 6 ہزار ارب روپے سے 30 ہزار ارب روپے ہو گیا۔ مشرف کے آٹھ سال کے دور میں دو ارب ڈالرز کا غیر ملکی قرضہ چڑھا۔ جب وزیراعظم اور وزیر کرپشن کرتے ہیں تو ملک نیچے جاتا ہے۔ ہمیں خوف تھا کہ کہیں ملک ڈیفالٹ نہ کرے، سارا ملک بیٹھ جانا تھا۔ ایسے وقت میں سعودی عرب’ یو اے ای اور چین نے ہماری مدد کی۔ شہباز شریف کے بیٹوں کے اثاثوں میں 85 فیصد اضافہ ہوا۔ شہباز شریف کا داماد بھی بیرون ملک فرار ہے۔ میں اب ان سے جواب مانگنے لگا ہوں۔
میں اب نواز شریف اور آصف زرداری سے جواب مانگوں گا۔ وزیراعظم نے اپنے نیچے اعلیٰ سطح کا انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کریں گے کہ دس سال میں کس طرح ملک کو تباہ کیا گیا۔ ملک پر 24 ہزار ارب روپے قرضہ کیسے چڑھا ؟ یہ انکوائری کمیشن رپورٹ بنائے گا۔ کمیشن میں آئی ایس آئی’ ایف آئی اے’ آئی بی’ ایف بی آر اور ایس ای سی پی کے ارکان ہوں گے۔ انہوں نے پوری کوشش کی ملک کو تباہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو مستحکم کرنا بڑا مسئلہ تھا۔ ذہن بہت پریشان تھا۔ ملک مستحکم کر لیا ہے اب ان سے جواب مانگوں گا۔ 10 برس میں قرض 6 ہزار ارب روپے سے 30 ہزار ارب روپے ہو گیا۔ چاہے جان بھی چلی جائے چوروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ مشرف کے 8 سالہ دور میں 2 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ بڑھا لیکن 10 برسوں میں بہت زیادہ قرض بڑھا عمران خان نے باتیں تو بہت کی ہیں لیکن اصل بات گول کردی کہ اولاً یہ کمیشن کتنے عرصہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گا؟ ۔
ثانیاً جو قرضے خور ہیں ان سے واپسی کیلئے کیا لائحہ عمل تیارکیاجارہاہے کیونکہ اب تلک تو ملک لوٹنے والے ہیرو بنے بیٹھے ہیں کارکن ان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج بھی کرتے ہیں اور ان کے نام پرووٹ بھی ڈالے جارہے ہیں دیگر پاکستان کوقرضوںکی دلدل میں دھکیلنے والے بے نقاب کیسے ہوں گے ؟ کوئی نہیں جانتا جس دن اس سوال کا جواب مل گیا معاملات بہتری کی طرف جاسکتے ہیں سرِدست سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اس صورت ِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان نے دھمکی دی احتساب کروں گا، وزیر اعظم کی ذہنی کیفیت کی تفتیش کیلئے کمیشن بنایا جائے،50 ہزار گھروں کے لئے حکومت کے پاس پیسے نہیں، ایک کروڑ نوکریوں کے بجائے 30ہزار نوکریاں جانے کا خدشہ ہے،عمران خان فائلیں پڑھ لیتے تو رات 12 بجے تقریر نہ کرنا پڑتی۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نیلم جہلم منصوبے پر 500 ارب روپے خرچ ہوئے، پورے ملک میں بجلی کا جال بچھایا اور قرضوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جبکہ 10 ہزار ارب کے قرضوں سے تمام ترقیاتی کام ہوئے، ہائی پاور کمیشن بنانا حکومت کی مرضی ہے، کمشن کے سامنے جانے کے لئے تیار ہوں اور حقائق سامنے رکھوں گا۔ انہوں نے وزیراعظم کو چیلنج کرتے ہوئے کہا آج عمران خان کی حکومت ہے، وہ ملکی اداروں کو استعمال کریں اور بتائیں کہ نواز شریف کے دور میں کون سی کرپشن ہوئی ہے ؟ ہم نے 3800 ارب دفاع پر خرچ کیے گئے، افغان بارڈر پر باڑ بھی اسی پیسے سے لگی، ملک میں بجلی کے کارخانے لگے اور گیس کی پائپ لائنیں بچھیں۔ میں نے اپنے گوشوارے ویب سائٹ پر ڈال دیئے ہیں وزیراعظم بھی اپنے گوشوارے ویب سائٹ پر ڈالیں۔
میں عمران خان کی جیلوں سے گھبرانے والا نہیں ہوں عمران خان کو تقریر ہی کرنی تھی تو دن میں کرتے یا پارلیمنٹ میں کرتے، ایسی کون سی ایمرجنسی تھی کی وزیر اعظم نے رات 12 بجے تقریر کی۔72 سال میں پہلی بار کسی وزیراعظم نے رات 12 بجے تقریر کی۔ آج ملک کی خدمت کرنے والوں کو سوچی سمجھی سازش کے تحت بدنام کیا جا رہا ہے اور جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو وہاں جمہوریت نہیں چل سکتی۔سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ان لوگوں نے ہمیشہ جھوٹ بولا ہے، ان کے وعدے اور نوکریاں کدھر گئیں۔انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ عوام میں نکل نہیں سکتے، مڈٹرم الیکشن ہوئے تو ہم ان کا مقابلہ کریں گے اور عوام ان کو بتائے گی۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وزیر اعظم کہہ رہے ہیں میں نے اعلیٰ اختیاراتی کمشن بنانا ہے جس میں آئی ایس آئی ، آئی بی ، ایف بی آر او ردیگر اداروں کے لوگ ہوں گے جو ماضی میں لئے گئے غیر ملکی قرضوں کے استعمال کا تعین کرے گا حالانکہ وزیر اعظم وزارت خزانہ کو ایک فون کال کریں تو انہیں ساری تفصیلات مل جائیں گی اور سارے حقائق سامنے آ جائیں گے کہ قرض لینے اور اس کے اخراجات کی حقیقت کیا ہے۔
اس کیلئے کسی کمیشن کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے دور میں جو 10ہزار ارب روپے قرض چڑھا اس میں ڈی ویلیوایشن کا عمل بھی شامل ہے ،اس قرض سے پاکستان میں ترقی ہوئی ہے۔ ماشاء اللہ کتنی بھیانک بات ہے کہ ان قرضوںسے پاکستان میں ترقی ہوئی حالانکہ ہم نے تو سناہے قرضے دنیامیں سب سے خوفناک امرہے قرضہ مانگنے والوںکی کوئی عزت نہیں کرتا لوگ ایسے لوگوںکو دیکھ کر کنی کترا جاتے ہیں اور دل ہی دل میںکہتے ہیں منگتا ای اوئے۔ صرف شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف پرہی موقوف نہیں آصف زرداری ،انورمجید، شہبازشریف ،میاںنوازشریف پرویزخٹک ،چوہدری پرویزالہی اور نہ جانے کتنے سیاستدان روزانہ ایسی ہی باتیں کرتے ہیں اورہم ان پریقین کرنے پر مجبور ہیں اس کے سوا ہم اور کربھی کیا سکتے ہیں۔بہرحال ہماری تو ساری ہمدردیاں اپنے وطن کے ساتھ ہیں ہمارے وطن کو لوٹنے والا ہمارا دوست نہیں ہوسکتا اس لئے ہماری تو دعاہے پاکستان کو جس جس نے لوٹاہے ہماری آنکھیں یہ منظردیکھیں کہ عوام ان کا منہ کا لا کرکے گلے میں رسی ڈال کرانہیں سڑکوںپرگھسیٹتا پھریں سب کہیں آمین۔