تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی موجودہ حالات و واقعات ہمیں زمانے کی گردش کا پتا دے رہی ہے اور عالمی صورتحال ہمیں سبق بھی دے رہی ہے کہ اسلام کے ماننے والوں کے لئے ساری دنیا میں اب دوسروں پر انحصار کرنا ناممکن ہو چکا ہے، دوسروں سے لو لگائے رہنا کہ وہ آئے گا اور ہماری مدد کرے گا۔
ہمارا دفاع کرے گا اور ہمارے جان و مال، دین و ایمان اور وطنِ عزیز کی حفاظت کرے گا، بالکل فضول ہے۔ ہم اب اپنے جان و مال، دین و ایمان، عقیدے و شعائر اور سر زمینِ وطن کی حفاظت اُسی وقت کر سکتے ہیں جبکہ ہمارے اندر خود اس کی قوت و صلاحیت ہو،اور اس تمام معاملے میں کسی سے پیچھے بھی نہیں ہے، اللہ نے ہمیں بھی ایٹمی طاقت سے نواز رکھا ہے، اس کے لئے ہم دوسروں کا سہارا اور تائید و تعاون ضرور لے سکتے ہیں، مگر اقدام ہمیں خود ہی کرنا ہوگا۔
مشرقِ وسطیٰ میں یمن جیسے حساس ملک میں جنگ کے شعلوں کے بھڑک جانے سے ان خدشات کو تقویت ملی ہے جس کا اظہار دنیائے عرب پہلے بھی کرتے آئے ہیں کہ خطے میں مسلمانوں کو مسلک کی بنیاد پر جان بوجھ کر لڑایا جا رہا ہے۔ ایک خبر کے مطابق مستقبل قریب میں اسرائیل کی صہیونی بالادستی کے لئے راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ حوثی قبائل کی جانب سے یمن کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ جمانا خطے میں آگ لگانے کے مترادف تھا لیکن یہ غلطی ان سے جان بوجھ کر کروائی گئی۔ اس سلسلے میں امریکہ نے جہاں ایک طرف ایران کو خاموش تھپکی دی تو دوسری جانب یمن کے سابق صدر عبد اللہ صالح کو سی آئی اے نے خوب استعمال کیا۔قصہ مختصر تو شعر کی ہی صورت میں ہو سکتا ہے:
پھول پژمردہ ہیں مرجھائی ہوئی ہیں کلیاں مالیوں کی ہی وجہ سے یہ چمن اجڑا ہے رنگ کرسی کی ہوس لا کے رہی بالآخر خون بہتا ہے ہر اِک سمت یمن اجڑا ہے
اس میں کوئی شک کی گنجائش ہی نہیں کہ سعودی عرب کو روحانی قیادت حاصل ہے اور دنیا کے مسلمانوں کو اس مقدس سر زمین سے قلبی لگائو ہے۔ سعودیہ کی پالیسی عجلت پسندی اور بے سوچے سمجھے فیصلے کرنے پر نہیں رہا ہے ، عالمِ عرب اور مشرق وسطیٰ کے حالات پر اس نے طویل عرصہ سے صبر و ضبط سے کام لیا، وزنی بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور پُر امن طریقہ پر مسئلہ کے حل کی ہر ممکن کوشش کی یہاں تک کہ آخری گھڑی آگئی اور جس میں وہ قدم نہ رکھنا چاہتا تھا، دشمنانِ اسلام کی ناعاقبت اندیشیوں اور اصرار و اکڑ کی وجہ سے اسے وہ کرنا پڑا۔سب کا عزمِ مصمم دشمنوں کے لئے ایک کھلا پیغام ہے۔
احساس اور خود اعتمادی یوں تو دو چھوٹے اور معمولی الفاظ ہیں، لیکن یہی دو الفاظ حقیقت میں ایک زندہ قوم کی علامت تصور کیئے جاتے ہیں۔ کسی بھی قوم و ملت کی ترقی میں مذکورہ بالا دو الفاظ کی اہمیت ہمیشہ سے مسلمہ رہی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جس کسی قوم سے احساس اور خود اعتمادی ختم ہوگئی وہ زوال پذیر ہو گئی۔ آج عالمی سطح پر قوم مسلم کا حال بھی کچھ ایسا ہی نظر آ رہا ہے۔ آج قوم مسلم کا دانشور طبقہ بھی احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ خود اعتمادی سے محروم ہو چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حالات روز بروز ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔مسلم ممالک کے حالات پر طائرانہ نظر بھی ڈالی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ سارے وسائل اور ذرائع کی موجودگی کے باوجود وہ استحکام سے محروم ہیں۔ وہ خود کو مغربی سامراجیت کے آگے سر نگوں سمجھتے ہیں اور مغربی ممالک اپنی طاقت سے انہیں مرعوب کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ آج خطہ عرب میں جو انتشار و بے چینی نظر آتی ہے وہ اسی احساسِ کمتری کے باعث ہے حالانکہ وسائل کے معاملے میں مسلم دنیا کسی بھی سطح پر کمتر نہیں۔ کہیں طاقت کے زور پر تو کہیں نظریاتی حربوں کے ذریعہ سامراجی طاقتیں ملت کا شیرازہ بکھیر رہی ہیں اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ (سامراجی طاقتیں) عرب ممالک کے قیمتی اثاثوں سے بھی استفادہ کر رہی ہیں بلکہ ان پر ایک طرح سے اپنا قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ بات صرف خطۂ عرب تک ہی محدود نہیں بلکہ اکثر اسلامی ملکوں میں بھی حالات کم و بیش وہی ہیں۔ اور ان میں اتنی ہمت و سکت نہیں کہ ملت کے لئے کسی حق بات کی آواز بلند کر سکیں۔
Arab Nations
جس قوم نے دنیا کو زندگی کے معنی بتائے، جس قوم نے زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے زرین کارناموں کے ذریعہ تاریخ کے ابواب بھر دیئے آج خود کو مفلوک الحال اور مجبور محسوس کرنے لگی ہے۔ یہ ہمارا احساسِ کمتری نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا ہم خود اعتمادی سے محروم نہیں ہو گئے ہیں؟ یقینا یہ ہماری دانشورانہ فکر کا بحران ہی ہے جو کہ ہمیں اس قدر تنزلی کا شکار بنا دیا ہے۔ ہم نے اپنی اصل کو، اپنی حقیقت کو فراموش کر دیا، انفرادی فوائد کی خاطر اس قدر خود غرض ہو گئے کہ اسلام کی اجتماعیت اور اس اجتماعیت کی طاقت سے ہی محروم ہو گئے۔ ملت کی زبوں حالی کے لئے صرف اغیار کو ہی دوش نہیں دیا جا سکتا اس کے لئے ہم خود بھی برابر کے بلکہ ان سے بھی زیادہ ذمہ دار ہیں، کیوں کہ ہمیں بحیثیت مسلمان داعی کا کردار ادا کرنا تھا ، دنیا کو راستہ دکھانا تھا، لیکن افسوس کہ اپنا ہی راستہ بھول گئے اور تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ ایسے میں ضرورت ہے تو اس بات کی کہ مسلم دنیا اپنی فراموش کردہ حقیقت کو جانے، اپنے سوئے ہوئے احساس کو جگائے، احساسِ کمتری کے خول سے باہر نکلے اور اپنے ازلی مشن ” امن عالم ” کے لئے متحرک ہو جائے، کیوں کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے اور امن کا پیامبر ہے۔ دنیا میں قیامِ امن اگر کسی صورت ممکن ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور اس مشن کو مسلمان ہی کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔
آج کے حالات میں یہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے دلوں سے احساسِ کمتری کو ختم کیا جائے۔ ملت میں دانشورانہ سوچ کو فروغ دیا جائے اور یہ کام ملت کے ہر ذی شعور فرد کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر کرنا ہوگا۔ تب ہی ایک انقلاب آ سکتا ہے اور قوم مسلم اپنا کھویا ہوا وقار پا سکتی ہے، عزم مصمم ہی ہمیں کامیابی کی ضمانت ہے، بصورتِ دیگر ہم دنیا کی تاریخ کا ایک بھولا ہوا باب بن جائیں گے۔