مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس نے کہا ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کی بجائے ان سے جنگ کا اعلان کیا جائے
Posted on August 15, 2013 By Geo Urdu اسلام آباد
اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی) مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس نے کہا ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کی بجائے ان سے جنگ کا اعلان کیا جائے اور جو ہتھیار پھینک دیں ان کے خلاف نرم رویہ اختیار کیا جائے، پاکستان میں اہل تشیع کی نسل کشی کی جا رہی ہے لہٰذا ہمیں شامل کیئے بغیر دہشت گردی کے خلاف کوئی بھی پالیسی کامیاب نہیں ہو گی، مولانا فضل الرحمن، سید منور حسن اور دیوبند کے علماء دہشت گردوں سے نفرت کا اظہار کریں۔
اس وقت ملک کی سالمیت داو پر لگی ہے،عوام اور ملک کو تحفظ دینے والے ادارے ناکام ہو چکے ہیں، مسجدوں اور دینی اداروں کو غیر ملکی امداد بند ہونی چاہیئے، 8 ستمبر کو شہید عارف حسین حسینی کی برسی کی مناسبت سے دفاع وطن کے حوالے سے کانفرنس کا انعقاد کریں گے جبکہ بان کی مون پاکستان کی بجائے امریکہ میں ڈرون حملوں کی مذمت کریں۔
گذشتہ روز علامہ اقبال احمد رضوی اور علامہ انصار فیضی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ناصر عباس نے کہا کہ 14 اگست کا دن پاکستان کے وجود میں آنے کا دن ہے اس ملک کو حاصل کرنے میں ہمارے آباو اجداد کا خون بھی شامل ہے، یہ ملک اس لیئے حاصل کیا تھا تاکہ یہاں پہ لوگ امن، سکون اور بھائی چارے سے زندگی گذار سکیں نیز تمام لوگوں کو ترقی کے یکساں مواقع میسر آ سکیں، لوگوں کو ان کے حقوق دیئے جائیں۔
معاشرے میں تفرقہ پیدا نہ ہونے دیں اور دہشت گردی اور خوف و ہراس پیدا نہ ہونے دیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد حکمرانوں اور ریاستی اداروں نے اپنی ذمہ دارایاں سر انجام نہیں دیں جس کی وجہ سے ہمارا آدھا پاکستان ہم سے جدا ہو گیا، موجودہ حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو سوسائٹی کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا ہے، نفرتیں پھیلائی جا رہی ہیں،اس میں ریاستی اداروں کا ہاتھ ہے، علاقائی شناخت کو ملکی شناخت پر غالب کیا جا رہا ہے۔
اس وقت ملک کی سالمیت داو پر لگی ہے، عوام اور ملک کو تحفظ دینے والے ادارے ناکام ہو چکے ہیں، سرحدی خلاف ورزی اور ڈرون حملے جاری ہیں جس پر ہم خاموش ہیں، ریاستی اداروں کی کمزوری اور خیانت کی وجہ سے یہ حالات سامنے آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرم ایجنسی میں دیہاتوں کو خالی کروا کے طالبان کو دوبارہ وہاں پہ آباد کیا جا رہا ہے جس سے وہاں پہ خانہ جنگی کا خدشہ ہے، دہشت گردوں کو کوئی خوف نہیں سال کے دوران فوج کے تقریباً چار ہزار جوان شہید ہو رہے ہیں۔
ڈی آئی خان کی جیل توڑنے پر وہاں کی صوبائی حکومت خاموش ہے، اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے، دہشت گردوں سے مذاکرات کی بجائے ان سے جنگ کا اعلان کیا جائے اور جو ہتھیار پھینک دیں ان کے خلاف نرم رویہ اختیار کیا جائے، جو آئین کو نہیں مانتے ان سے مذاکرات بزدلی ہے، وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس کو ویلکم کرتے ہیں تاہم ان باتوں پر عملدرآمد بھی ہونا چاہیئے، پاکستان میں لشکر تیار کیئے جا رہے ہیں جو کہ شیعہ اور سنیوں کو قتل کر رہے ہیں۔
ہم فرقہ ورائیت پر یقین نہیں رکھتے، پاکستان میں اہل تشیع کی نسل کشی کی جا رہی ہے لہٰذا ہمیں شامل کیئے بغیر دہشت گردی کے خلاف کوئی بھی پالیسی کامیاب نہیں ہو گی، اس حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیئے، اس جنگ میں عوام کو اعتماد میں لیا جائے تو یہ جنگ ہم جیت سکتے ہیں، وطن بچانے کی مہم کا بھرپور ساتھ دینگے۔اس وقت ملک کی سالمیت داو پر لگی ہے، عوام اور ملک کو تحفظ دینے والے ادارے ناکام ہو چکے ہیں، مسجدیں اور مدر سے ضرورت کے تحت بنائے جائیں، مسجدوں اور دینی اداروں کو غیر ملکی امداد بند ہونی چاہیئے۔
ہمیں ایران سے کوئی امداد نہیں مل رہی۔ علامہ ناصر عباس نے کہا کہ مصر کی جمہوری حکومت ختم کرنے میں امریکہ کیساتھ ساتھ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کی حکومتیں بھی شامل ہیں کیونکہ ان کو اپنی بادشاہت کو خطرہ ہے، شام میں بھی یہی حکومتیں سرگرم عمل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارہ کہو کے واقعہ کے اصل حقائق سے عوام کو آگاہ کیا جائے، مولانا فضل الرحمن، سید منور حسن اور دیوبند کے علماء دہشت گردوں سے نفرت کا اظہار کریں۔
دہشت گردی کا لنک مذہب سے جوڑا جا رہا ہے، یہ کیسے مدرسے ہیں جو قاتل پیدا کر رہے ہیں ایسے لوگوں کو سزا ملنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ 8 ستمبر کو شہید عارف حسین حسینی کی برسی کی مناسبت سیاس ام آباد میں دفاع وطن کے حوالے سے کانفرنس کا انعقاد کریں گے، انہوں نے کہا کہ ضمنی انتخابات میں لوکل سطح پر امیدواروں کی سپورٹ کرینگے تاہم بلدیاتی انتخابات میں بھرپور شرکت کرینگے۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ امریکہ کا ذیلی ادارہ بن چکا ہے، بان کی مون پاکستان کی بجائے امریکہ میں ڈرون حملوں کی مذمت کریں۔