میرے پیارے مست ملنگ بیٹو! کل سویرے ان گناہ گار اور اچھے وقتوں کو ترسی آنکھوں نے میرے ساتھ ہونے والی حیوانی بدسلوکی کا وہ ناقابل فراموش منظر دیکھ لیا ہے کہ جس کے بعد اصولی اور اخلاقی طور پر میرے دل میں زندہ رہنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ دراصل ہوا کچھ یوں کے مجھے میرے ارب پتی مالک نے اپنی جان سے زیادہ عزیز اپنے پالتو ‘ ملی ‘ کوڈاگ فیشن شو کے لیے لش پش کرنے کا فرمان جاری کیا، غلطی سے نہاتے وقت تھوڑا سا شمپیو اس بدمزاج کتے کے کان میں چلا گیا۔
پھر کیا اس بدمست کتے نے پہلے تو میرے ہاتھوں نہانے سے انکار کرتے ہوئے مجھے تسلی سے سونگا اور پھر اپنی تھوتھنی میری طرف کر کے یوں غیظ و غضیب سے بھونکا جیسے مجھے کہہ رہا ہو ” کہاں میں جرمن شیپرڈ جسے دنیا کے ہر اعلیٰ برینڈ کی آسائش اور راحت میسر ہے اور کہاں دو وقت کی روٹی کے لیے ایڑیاں رگڑنے والے تم دوٹکے کے مینگو مین جسے اس کے گھر والے منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتے، تمہاری جرات کیسے ہوئی میرے ساتھ فری ہونے کی؟۔ ” اس وقت میرا دل چاہا کہ میں ایک ثابت اینٹ اٹھائوں اور اس کتے کے سر میں دے ماروں، لیکن ہستی ہی اپنی کیا ہے ان غیر ملکی کتوں کے سامنے۔۔۔یہ سوچ کر کہ ملی کوئی ایرا غیرا کتا نہیں ، بھیگی بلی کی طرح سر جکائے ظالم کی بلاوجہ کی پھٹکار کو اپنے اوپر برسنے دیا۔
اس کم ذات جانور کے ہاتھوں رسوا کن خاطر مدارت کے بعد میری بچی کھوچی غیرت جنجھور جنجھور کر مجھے سے سوال کررہی کہ اے منجمد مزاج مینگو مین اس ذلت کی غفلت سے جاگ جا، یا اس جہاں سے بھاگ جا۔۔۔لہذا پہلی فرصت میں مجھے فوت ہونے کا جو بھی آسان، سستا اور عملی طریقہ میسر آئے گا اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس جہان مسائلستان سے کوچ کر جائوں گا۔ مرنے میں اس قدر عجلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں ا پنی موت کا کریڈٹ نہ تو اپنی نئی نویلی موجودہ حکومت کو دینا چاہتا ہوں ا ور نہ ہی اپنے ازلی مہربان آئی ایم ایف کو ۔۔ انکی مخلصانہ کاوشیں اپنی جگہ تاہم مجھے ان دونوں کے ہاتھوں شہید ہونے کا کوئی شوق نہیں۔نیز یہ کہ طویل مدتی لاروں اور باتوں کے لالی پاپس پہ زندہ رہنے کا اسٹمانہ پچھلی حکومت کے دورمیں ہی اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ سوچا تھا کہ الیکشن کے بعد تجربہ کار شیر کے روشن انقلاب کو یاصاف دامن بلے کے پرجوش سونامی کو اپنی زندگی میں بڑے بڑے چمت کار کرتے دیکھ سکوں گا لیکن شومئی قسمت کہ وہ تبدیلی جس کی تلاش برسوں سے اپنی ہی مستی کی چکی میں پسنے والے عام آدمی کو تھی، وہ سب کو چکما دے کر کہیں ایسی جگہ جا چھپی ہے کہ دور تلک اس تلاش گمشدہ کا نام نشان کہیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔
Election
سنا ہے انقلاب اور تبدیلی الیکشن کے نعروں کی بے تحاشا تھکن اتارنے کسی صحت افزا ء مقام پر رو پوش ہوگئے ہیں اور اگلے الیکشن تک ان کا ارادہ یونہی گمنام زندگی گزارنے کا ہے۔ اس لیے نیا پاکستان بنانے کی بجائے پرانے پاکستان کے زخموں پر مرہم لگانے کی کوششیں زور وشور سے نہ سہی پر مگر جاری وساری ضرور رہیں۔ سواس دل ناتواں کے اندر عزت اور سکون سے زندہ رہنے کی جو تھوڑی بہت رمق باقی تھی اسے بھی اس کم بخت انقلاب اور تبدیلی کی بے وفائی نے زندہ درگور کر ڈالا ہے اور اوپر سے یہ سب۔۔۔ ویسے بھی سوئے ہوے لوگ کسی کھاتے میں نہیں آتے اس لیے عام آدمی کا ہونا نا ہونا، ایک ہی برابر ہے۔
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا دنیا میں خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر دریا غم کے پار اترجائیں ہم تو کیا
میرے کنگال گدی نشینوں! جیساکہ حالات وواقعات سے ثابت سے ہے کہ میں مرنے میں حق بجانب ہوں۔ لہذا، اگلے چنددنوں میں میرے انتقال کرنے کے فیصلے کو اٹل سمجھو اور ادھرادھر سے ادھار پکڑ کر میرے باعزت کفن دفن کا بندوبست کرلو تاکہ میرے جنازے میں شرک ہونے والوں اور میرا حساب کرنے والے فرشتوں کو یہ احساس نہ ہونے پائے کہ مرنے والا کوئی chronic بھوکا ننگا تھا۔ چلو اور کچھ نہیں تواس عام آدمی کو مرتے وقت ہی تھوڑی سی عزت نصیب ہو جائیگی۔ چونکہ میرے پاس تمہارے لیے وارثت میں چھوڑ کر مرنے کو ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں اس لیے دل پہ پتھر رکھ کر میری اس وصیت کو ہی میرا کل اثاثہ سمجھ لینا۔ ویسے بھی نت نئے ٹیکسوں اور آسمانوں سے باتیں کرتی مہنگائی کے اس دور میں کسی بھی عام آدمی کے بس میں نہیں کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے ایک دھیلابھی چھوڑ کر مر سکے سوائے زبانی کلامی جمع خرچ یا قرضوں کے ۔ یادر کھو غربت کی زندگی اور ذلت کی موت میں تم اکیلے نہیں ہو بلکہ خط غربت سے نیچے زندگی کے دن پورے کرنے والے ساٹھ فیصد سے زائد اہل وطن تمہارے غم میں برابر کے حصہ دارہیں، لہذا جب کبھی اپنی بے بسی اورخواری کا احساس زیادہ شدت سے ستانے لگے تو اپنے اردگرد نظر دوڑا لینا۔ تمہیں تسیلی ہو جائے گی، صرف تم ہی نہیںبلکہ ایک عظیم الشان جم غفیر کوبری طرح جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور یہ کہ تمہارے مرحوم باپ نے وارثت کے معاملے میں تمہارے ساتھ کوئی قابل ذکر ناانصافی نہیں کی کہ اس کے پاس ایسا کچھ کرنے لیے تھا ہی نہیں۔ اس سے پہلے کہ میں چوہے مار گولیوں سے واقعی استفادہ کر لو، چند مزید باتیں تمہارے گوش گوار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہرماہ بعد روزمرہ اشیاء کی پرائس لسٹ باقاعدگی سے میری قبر پر چپکاتے رہنا تا کہ میری روح کو یہ اطمینان ملتا رہے کہ میرا اس دارفانی سے کوچ کرنے کا فیصلہ انتہائی بروقت اور آ برومندانہ تھا۔ اس بات کا قوی امکان ہے۔
اگر تم قاتل مہنگائی سے بچ بھی گئے، تودہشت گرد اور بھتہ خور تمہاری خبر لینا نہیں بھولیں گے اور خو ش قسمتی سے ان سے بھی بچ نکلے تو شاید اپنی بیویوں کے طعنوں سے نہ بچ پائو۔اس لیے اگلے تین سال تک حالات میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہ آنے کی صورت میں مزید مسائل کی سولی پر چڑھنے سے بہتر ہے کہ نامعلوم دہشت گردوں اور معصوم بھتہ خوروں کے ہاتھوں شہید ہوکر سیدھے میرے پیچھے چلے آ نا جنت میں مل کر مزے کریں گے۔ جس قدر دنیا میںہمیں جمہوریت کے نام پر ذلیل و خوار کیا گیا ہے، یہ بات کنفرم ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے بدلے جنت عطا فرمائے گا۔ تمہارے بیٹے اگر غلطی سے پڑھ لکھ جائیں تو انہیں میڑریڈر، تھانے دار یا سیاست دان کے علاوہ کچھ اور مت بنانا۔ آخر میں ہوسکے تو پالتو کتوں کی نظر میں عام آدمی کی عزت کو کسی نہ کسی طرح بحال کرنے کی کوشش ضرور کرنا۔ میری آتما کو شانتی ہوگی اور ہاں میری اس ناگہانی موت کا بدلہ گلی محلے کے کسی لا غر یا قصاب کے پھٹے کے نیچے سونے والے کسی آوارہ کتے سے لینے کی کوشش مت کرنا کہ اللہ تعالی کسی بے گناہ کے ساتھ زیاتی کو بالکل پسند نہیں فرماتا۔ فقط تمہارا اپنا اکلوتا اور جنتی باپ بشیرا ( مینگو مین) بقلم خود۔