کراچی (جیوڈیسک) گلاسگو میں منعقدہ 20 ویں کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان 16 سال بعد گولڈ میڈل سے محروم رہا اور 3 سلور اور ایک برانز میڈل ہی حاصل کر سکا۔
اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ہونے والے مقابلوں میں صرف ریسلنگ، جوڈو اور باکسنگ میں میڈلز نصیب ہوئے حالانکہ پاکستانی دستے نے 12 کھیلوں میں شرکت کی تھی، 1998 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ایک بھی طلائی تمغہ حاصل نہ ہوا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مقابلوں کیلیے 62 رکنی بھاری بھرکم جتھہ گلاسگو بھیجا گیا، اس میں کھلاڑیوں کے ساتھ آفیشلز اور سرکاری خرچ پر سیر سپاٹے کرنے والے اعلیٰ افسران کی بھی کمی نہیں تھی، پاکستانی اسپورٹس گذشتہ چند برسوں سے جس تباہ کن صورتحال سے دوچار ہیں اسے ذہن میں رکھتے ہوئے کھلاڑیوں سے کسی غیرمعمولی کارکردگی کی توقع بھی نہیں تھی۔
2010 میں دہلی کامن ویلتھ گیمز کے بعد سے گلاسگو تک 4 سال کا قیمتی وقت ملکی اسپورٹس میں حکومتی مداخلت کی نذر ہو گیا،اس کا سب سے بڑا نقصان کھیلوں اور کھلاڑیوں کو ہوا، سرکاری سرپرستی میں قائم شدہ متوازی پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور اسپورٹس بورڈ نے ان فیڈریشنزکو بین الاقوامی مقابلوں سے شرکت سے روکے رکھا جو انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کی تسلیم کردہ پی او اے کے ماتحت کام کرتی رہی ہیں، اگر کسی مقابلے میں پاکستان نے شرکت بھی کی تو وہ مخص رسمی کارروائی ثابت ہوئی، گلاسگو کامن ویلتھ گیمز اس کی تازہ ترین مثال ہیں، اس میں پاکستان اپنے قومی کھیل ہاکی میں شرکت سے محروم رہا کیونکہ فیڈریشن آخر وقت تک اس پی او اے کے ذریعے انٹری بھیجنے کو تیار نہ ہوئی جسے آئی او سی ملک کی نمائندہ تسلیم کرتی ہے۔
کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کی شرکت بھی آخر وقت تک بے یقینی کا شکار رہی کیونکہ سرکاری سرپرستی میں قائم متوازی اولمپک ایسوسی ایشن نے حکومت کی حمایت سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر لیا، اس نے آخری وقت تک یہ کوشش جاری رکھی کہ پاکستان کسی طرح کھیلوں میں شرکت نہ کر سکے، البتہ عدالت نے پاکستانی دستے کو مقابلوں میں شرکت سے روکنے کے بارے میں کوئی بھی حکم جاری نہیں کیا۔ کامن ویلتھ گیمز میں پاکستانی شرکت کے ضمن میں یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کہ جب یہ بات سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کشتی اور باکسنگ کے سواکسی بھی دوسرے کھیل میں تمغے کا حصول ناممکن تھا تو بھاری بھر کم اخراجات کے ذریعے دیگر کھیلوں میں کھلاڑیوں اور آفیشلز کی بڑی تعداد کیوں بھیجی گئی؟
جوڈو کو فہرست سے ہی خارج کر دیا گیا تھا تاہم سابق اولمپئن باکسر حسین شاہ کی پی او اے کے صدر سے بات چیت پر ان کے بیٹے شاہ حسین کی شرکت ممکن ہو سکی جنھوں نے چاندی کا تمغہ جیتا۔ اس کے برعکس لان بولنگ جیسے کھیل کو پہلی بار شامل کر کے اسکاٹ لینڈ میں رہنے والے 2 ایسے افراد کو ملک کی نمائندگی کے لیے منتخب کرلیا گیا جو گلاسگو میں کلب کی سطح پر کھیلتے اور ایک ریسٹورنٹ چلاتے ہیں۔ اسی طرح سوئمنگ میں ملک سے باہر مقیم تیراکوں پر بھی خاص نظر کرم رہی۔
ویٹ لفٹنگ میں بھی سلیکشن پر شدید اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ اب پاکستان اسپورٹس بورڈ ایک بار پھر زبردست تنقید کی زد میں ہے کیونکہ وہ پی او اے تنازع میں سب سے بڑا فریق بن کر سامنے آیا، حالانکہ اس کی واحد ذمہ داری کھلاڑیوں کی کوچنگ اور تربیت ہے۔
پاکستانی اسپورٹس کے قضیے میں سب سے بڑا نقصان ریسلنگ کا ہوا جس میں چارسال قبل دہلی گیمزمیں 2 گولڈ اور ایک سلور میڈل ملا تھا، اس کے فوراً بعد پاکستانی ریسلرز آسٹریلیا میں منعقدہ کامن ویلتھ گیمز چیمپئن شپ میں شرکت سے محروم کر دیے گئے۔
پی ایس بی نے آسٹریلوی سفارت خانے کو وہ خط جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا جس میں یہ ضمانت مانگی گئی کہ یہ ریسلرز مقابلے ختم ہونے کے بعد وطن واپس آ جائیں گے، ریسلرز دہلی اور گلاسگو گیمزکے درمیانی چار سالہ عرصے میں ایک بھی انٹر نیشنل ایونٹ میں حصہ نہیں لے سکے، نہ ہی ٹریننگ کے لیے کوئی موثر پروگرام ترتیب دیا گیا، مشکل حالات میں گلاسگو جانے والے ریسلر چاندی اور کانسی کا ایک ایک تمغہ ہی حاصل کر سکے۔