انتخابات میں عوام کا جوش و خروش اور پاکستانی عوام کی تبدیلی و انقلاب کے خواب کو ”تعبیر دینے کی مثبت کوشش کی وجہ سے کئی بڑے سیاسی بت ضرور پاش پاش ہوئے اور ملک ”تبدیلی ” سے گزرتا دکھائی دیا مگر ”انقلاب ” کی عوامی خواہش کے ساتھ جو کچھ ہوا اسکے نتیجے میں ماسوائے ”فاتح جماعت ” کے ملک بھر کی تمام جماعتوں نے انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے ”تحفظات ” کے اظہار کے بعد انتخابات میں بدترین دھاندلی کے خلاف احتجاج ”کا بھی آغاز کردیا ہے اور انتخابی دھاندلی کے خلاف عوامی احتجاج پرتشدد صورتحال اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
دوسری جانب پرویز مشرف پر آئین توڑنے ججز نظربندی بینظیر بھٹو و اکبر بگٹی قتل اور لال مسجد آپریشن کے حوالے سے مقدمات کے بعد انہیں نا اہل قرار دیکر انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیئے جانے پر ان کی سیاسی جماعت ”آل پاکستان مسلم لیگ ” نے اسے ناانصافی مساوات کے قوانین سے انحراف اور آئین کی پامالی قرار دیتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تھا مگرانتخابات کے بعد تمام تر نتائج کا جھکاؤ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب دیکھتے ہوئے آل پاکستان مسلم لیگ نے انتخابات کو غیر شفاف یا انتخابات میں دھاندلی کاشکوہ کرنے کی بجائے الزام لگایا ہے۔
پاکستان کے وسائل پر قابض عوام کو غلام بنانے والے استحصالی عناصرکے نزدیک چونکہ پاکستان سے محبت ‘ اس کی حفاظت ‘ اس کی تعمیرو استحکام کیلئے کوشش اور عوام کی خدمت جرم ہے اور اسی جرم کی پاداش میں پہلے لیاقت علی خان کو قتل کیا گیا پھر بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے کے بعد بینظیر بھٹو کو گولی ماردی گئی اور اب پرویز مشرف کو پاکستان کی حفاظت و عوام کی خدمت کی سزا دینے کیلئے ”انجینئرڈ نتائج ” کے تحت ان لوگوں کو اقتدار میں لایا گیا ہے۔
جو پرویز مشرف سے نفرت کرتے ہیں اور اس سے انتقام لینا چاہتے ہیں جبکہ میاں صاحب کا انتخاب سے قبل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا عندیہ اور اب نتائج کے بعد حکومت سازی کے عندیئے کے ساتھ مشرف کو اپنی سابقہ حکومت کے خلاف بغاوت کا ذمہ دار ٹہرانا آل پاکستان مسلم لیگ کے اس خدشے کی تصدیق کرتا دکھائی دے رہا ہے کہ کچھ قوتیں پرویز مشرف کے قتل کیلئے جسٹس افتخار چوہدری اور میاں نواز شریف کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کی کامیاب کوشش کررہی ہیں۔
Nawaz Sharif
میاں نواز شریف کو اس بندوق کے ٹریگر میں اپنی انگلی ڈال کر گولی چلانے کے الزام سے بچنے کیلئے مشرف کا معاملہ عدالت پر چھوڑدینا چاہئے کیونکہ نوازشریف کی جمہوری حکومت کے خلاف ”اقدام ” کی عدلیہ پہلے ہی توثیق کرکے پی سی او کے تحت حلف اٹھاکر مشرف کے اقدام کو آئینی تحفظ دے چکی ہے اسلئے مشرف کو میاں صاحب کی حکومت کی رخصتی کے الزام میں تو سزا نہیں ہوسکتی البتہ دیگر کیسز سے میاں صاحب کا چونکہ براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔
نہ ہی انہیں کوئی نفع یا نقصان ہے اسلئے میاں صاحب سول وفوجی اداروں کے درمیان ہمیشہ کیلئے مخاصمتی دیوارکھڑی کرنے کی اس سازش سے خودکو جتنا دور رکھیں ان کے سیاسی مستقبل کیلئے اتنا ہی بہتر ہے۔ دوسری جانب انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے علاوہ دیگر تمام جماعتوں کا یکساں مؤقف اور احتجاج ثابت کررہا ہے کہ آئین کی شق 62اور63پر عملدرآمد میں ناکام الیکشن کمیشن انتخابات کو شفاف بنانے میں بھی ناکام ہی رہا ہے۔
جبکہ نگراں حکومت کی جانبداری بھی شکوک و شبہات سے محفوظ نہیں رہ سکی ہے۔ عدالت کا کردار آزادی کے بعد سے عوامی مفادات کی نگہبانی کی بجائے آئین کی پاسداری کے معاملات کی ترجیحات کو فوقیت دیتا دکھائی دیا ہے جبکہ آزاد عدلیہ ‘ غیر جانبدار نگراں حکومت اور خود مختار الیکشن کمیشن کی موجودگی میں انتخابی معاملات میں دخل اندازی فوج کا کام نہیں تھا اور نہ ہی اسے انتخابات میں دھاندلی کا ذمہ دا ٹہرایا جاسکتا ہے۔
کیونکہ اس کے پاس دھاندلی روکنے کا اختیار ہی نہیںتھا ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلح افواج کی بے اختیار قوت کے طور پر موجودگی میں ملک بھرمیں جو کچھ ہوا وہ میڈیا نے کھل کر عوام کے سامنے رکھا جس کے بعدفتح مند سیاسی جماعتوں کے کارکنان کے سوا پاکستان کا کوئی بھی شہری انتخابات کو منصفانہ’ غیر جانبدارانہ و شفاف ماننے اور ”انجینئرڈنتائج کو عوامی مینڈیٹ تسلیم کرنے کیلئے رضامند دکھائی نہیں دیتا۔ اس امر کی نشاندہی راقم نے پہلے ہی کردی تھی۔
Pakistan People
انقلاب کو روکنے کی کوئی بھی غیر جمہوری کوشش یا عوامی استحصال کا روایتی طریقہ عوام میں اشتعال پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے اور وہی ہورہا ہے۔طے شدہ انتخابی نتائج کو عوامی مینڈیٹ کے نام سے جاری کرکے من پسند افراد کو بھاری اکثریت سے اقتدار میں لانے کی کوشش نے ملک بھر میں احتجاج کی جو آگ بھڑکائی ہے اس کی وجہ سے سندھ میں دفعہ 144نافذہوچکی ہے اور لاہور واسلام آبادمیں ”عوامی اشتعال” دگرگوں حالات کی نشاندہی کررہا ہے۔
اس صورتحال میں وزارت عظمیٰ کے یکہ و تنہا امیدوار میاں نواز شریف کی جانب سے تمام سیاسی قوتوں کے مینڈیٹ کے احترام اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کا عندیہ خوش آئند ضرور ہے مگرمیاں صاحب اگر اس مخلصانہ جذبے کو ”الفاظ ” تک محدود رکھنے کی بجائے اس کی عملی تفسیر پیش کرتے ہوئے خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کو ملنے والے مینڈیٹ کا احترام کریں’ تحریک انصاف کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بجائے حکومت سازی میں عمران خان کی معاونت مشاورت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیں۔
پیپلز پارٹی کے ساتھ محاذآرائی کی بجائے سیاسی بلوغت ووسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سندھ میں پیپلزپارٹی کے معاملات میں مداخلت سے اجتناب برتیں بلوچستان کی حکومت سازی کا اختیار بلوچستان میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پختونخواہ ملی عوامی پارٹی سے غیر مشروط تعاون کی نئی سیاسی روایت کی بنیاد رکھیں۔
مرکز میں حکومت سازی کرتے ہوئے پیپلز پارٹی تحریک انصاف متحدہ قومی موومنٹ مسلم لیگ فنکشنل جمیعت علمائے اسلام ( فضل الرحمان ) جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو ان کے عوامی مینڈیٹ کے مطابق شراکت و مراتب کی فراہمی کے ذریعے پاکستان سے حکومت گراؤ اپوزیشن کی روایت کا خاتمہ کرکے تعمیری اپوزیشن کی بنیاد رکھیں جبکہ پنجاب حکومت کی تشکیل میں مسلم لیگ (ق) کے بچھڑے ہوئے تجربہ کار سیاستدانوں کو بھی پھر سے گلے لگالیں۔
Nawaz Sharif
تو یہ میاں صاحب کے خلوص اور گفتار و اعمال میں یکسانیت کا ثبوت بھی ہوگا اور ملک میں تعمیر و ترقی اور خوشحالی و آسودگی کے ایک ایسے انقلاب کی بنیاد بھی رکھے گا جو یقینا میاں صاحب کیلئے عوام کے دل میں محبت و عقیدت کے موجودہ جذبے کو مزید گہرا و توانا بھی کرے گا اور عوامی مینڈیٹ چرالئے جانے کے غم کو بھلانے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ”میاں صاحب ” اقتدار کے نشے کا شکار ہوکر” عام انسان” ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔
یا مشرف کے معاملات کو عدلیہ پر چھوڑ کر دانشمندی اور ملک و قوم کی بہتری و محفوظ مستقبل کیلئے تما م سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملاکر حب الوطنی کے ثبوت کے ذریعے وہ ”خاص آدمی” ہونے کا ثبوت دیتے ہیں جو اقوام کی تقدیر بدلنے اور انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر ایسے افراد اقوام میں ہزاروں سال میں کبھی پیدا ہوتے ہیں۔