جموں و کشمیر (ثمینہ راجہ) میں تمام بھائیوں سے گزارش کروں گی کہ وہ قبیلائی حلقوں اور برادری اِزم کے دائروں میں مقیّد ہو کر نہ سوچیں ۔ ہمیں ایک قوم کی حیثیت میں سوچنا چاہیئے ۔ ہم کسی بھی صورت میں برادریوں اور قبیلوں کی بانٹ میں تقسیم ہو کر اپنے عظیم قومی مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے۔ ہمیں قبیلائی تعلق سے قطع نظر کسی بھی فرد کے غلط کام کی مذمت اور کسی بھی اچھے کام کی توصیف کرنی چاہیئے۔
چند پاکستانی پٹھو سردار ابراہیم کے غدارانہ اور قوم فروشانہ کردار کو بے نقاب ہونے سے بچانے کے لیئے سُدہن قبیلے کی آڑ میں پناہ لینا چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگ سردار ابراہیم کے سیاسی مرید اور پاکستان کے ایجنٹ ہیں ۔ وہ سُدہن قبیلے کا سہارا لے کر سردار ابراہیم اور پاکستان کے اُن کرتوتوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں جو ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم اور اس پر پاکستان اور بھارت کے غاصبانہ قبضوں کی صورت میں منتج ہوئے ۔ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ سُدہن، راجپوت یا گوجر؛ کوئی قبیلہ بھی اجتماعی طور پر غلط کار اور وطن دُشمن نہیں ہے۔
ان قبیلوں کے چند لوگ وطن فروشی اور قوم دشمنی میں شریک رہے ہیں اور ہمیں ان اشخاص کے انفرادی کردار پر بات کرنی چاہیئے ۔ میں سُدہن بھائیوں سے توقع کروں گی کہ وہ اپنے آپ کو سردار ابراہیم کی ذات سے لاتعلق کرتے ہوئے سردار ابراہیم کے منافقانہ اور غدّارانہ قومی کردار کی مذمت کریں گے ۔سردار ابراہیم پاکستان کا تنخواہ دار ایجنٹ تھا اور جو لوگ اس کے کردار کا دفاع کرنا چاہتے ہیں یا اُس کے فوٹو لٹکانے کی کوشش کرتے ہیں قوم اُنہیں بھی سردار ابراہیم کے ساتھ کھڑا کرے گی ۔ اس لیئے میں توقع کروں گی کہ کوئی محبِ وطن ریاستی باشندہ اپنے آپ کو سردار ابراہیم کی صف میں کھڑا نہیں کرے گا۔
یہاں یہ بات میں پھر دہرانا چاہوں گی کہ گلاب سنگھ اور ڈوگرے راجپوت تھے ۔ مگر کسی کا راجپوت ہونا اس کی اچھائی کی دلیل نہیں، بالکل اُسی طرح جیسے کسی کا سُدہن ہونا یا چوہدری ہونا اسے اچھا یا برا نہیں بناتا ۔ ڈوگروں نے 84471 مربع میل پر محیط ریاست جموں، کشمیر و تبتہا کی تشکیل کی تھی اور اس لیئے فِطری طور پر وہ اس ریاست کے وجود اور اسکی سالمیت کے محافظ تھے ۔ اس بات کو سمجھنے کے لیئے کسی لمبی چوڑی سائینس یا جیومیٹری کی ضرورت نہیں ہے کہ انسان جس چیز کی تعمیر کرتا ہے اس کو بچانا، قائم رکھنا اور ترقی دینا چاہتا ہے ۔ ڈوگروں نے چونکہ ریاست جموں، کشمیر و تبتہا قائم کی تھی اس لیئے وہ اس کو آزاد اور خودمختار مُلک کے طور پر قائم بھی رکھنا چاہتے تھے۔
درحقیقت برِصغیر کی جغرافیائی تقسیم کے تناظر میں جب پاکستان اور بھارت کے قیام کا فارمولا بنایا گیا تو ان حالات میں ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ھری سنگھ وہ واحد لیڈر تھا جس نے ریاست جموں، کشمیر و تبتہا کی آزادی اور خودمختاری کا تصوّر پیش کیا تھا ۔ یہ ایک تلخ اور روح فرسا سیاسی حقیقت ہے کہ 1947 میں ڈوگرہ حکومت کے علاوہ ریاست جموں، کشمیر و تبتہا کی تمام سیاسی قوتیں ریاست کی تقسیم یا بھارت اور پاکستان میں سے کسی کے ساتھ اس کے الحاق کے لیئے سرگرمِ عمل تھیں۔
ان حالات میں صرف ڈوگرہ حکومت ریاست کی سالمیت، آزادی اور خودمختاری کی علمبردار تھی ۔ اور ڈوگرہ حکمرانوں کے اسی کردار کی بدولت آج قوم پرست ڈوگرہ حکمرانوں کی توصیف کرتے ہیں ۔ڈوگرہ حکمرانوں میں ہزار خامیاں ہوئی ہوں گی؛ مگر ریاستی سالمیت، قومی آزادی اور ملکی خودمختاری کے تحفظ کا ان کا قومی کردار ان کی تمام خامیوں پر حاوی ہے ۔اور ان کے اسی قومی کردار کے باعث قوم پرست ان کی عظمت کے قائل ہیں ۔ یہ کسی مخصوص برادری یا قبیلے کی سیاست نہیں بلکہ قومی شناخت اور ملکی ناموس کا تقاضا ہے۔