تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری تمام بڑے محکمہ جات پرائیویٹائز کیے جا چکے ہیں “قومے فروختندو چہ ارزاں فروختند ” کے مصداق دفاعی نقطہ نظر سے بھی بہت ہی ضروری اور اہم ادارے تک عملاً فروخت کیے جا چکے ہیں محکمہ ٹیلی فون عربی ممالک کی ایک کمپنی اتصالات کے حوالے کیا جا چکا۔راوی بتاتے ہیں کہ اس کو حوالے کرنے کے باوجود اس میں 50 فیصد سے زائد کی ملکیت حکمرانوں اور ان کے رشتہ دار و دوست احباب کے پاس ہے منافع میں حصہ علیحدہ ہے یعنی نام تو اتصالات کا چل رہا ہے مگر انڈر ہینڈ یعنی خفیہ طور پر ہمارے “مہربان “حصہ دار ہیں اور ہماری ہمہ قسم بچتوں کی رقوم فارن بنک اکائونٹس میں جمع ہوجاتی ہیں اسی لیے تو جن رقوم کے عوض اتصالات کو ان کا قبضہ دیا گیا ہے اس سے تین گنا آمدنی تو صرف ٹیلی کمیونیکیشن کے ذریعے مل جاتی تھی اور کروڑوں اربوں روپے کی عمارات اور محکمہ کی زمینیں اس کے علاوہ ہیںجو غالباً مفت میں کمپنی کو دی گئی ہیں۔کوئی ڈھکی چھپی بات نہ ہے اور نہ اب راز کہ کم وبیش ایک ار ب ڈالرز تو اتصالات نے محکمہ کی “وصولی”کے وقت سے آج تک پاکستانی حکمرانوں کودیے ہی نہ ہیں۔ 2006 میں سودا ہوا اور اب تک83ارب کی وصولی نہیں ہوسکی اس کا سود ہی کم ازکم 12ارب روپے سالانہ بنتا ہے کم ازکم یہ رقوم پہلے زرداری اور اب شریفوں کے اکائونٹس میں تو لازماً کمپنی جمع کروارہی ہو گی۔ محکمہ کے اندر بھی سودا ہونے سے آج تک سخت افرا تفری مچی ہوئی ہے ۔ملازمین حکمرانوں کی بیوقوفیوں پر خون کے آنسو رورہے ہیں۔
زبردستی نکالے و دیگر ریٹائرڈ ملازمین میں سے تومعدودے چند کوپنشن کی ادائیگی ہوتی ہے وہ بھی جو اپروچ کرے اور تقریباً1/3حصہ پنشن کامتعلقہ “صاحب بہادروں ” کے حوالے کرنے پر تیار ہوجو گولڈن ہینڈ شیک دیکر وقت سے پہلے زبردستی ریٹائرڈ کردیے گئے ہیں وہ سخت پریشانی کے عالم میںزندگی گزارنے پر مجبور محض ہیں کہ کوئی آنسو پوچھنے والا تک نہ ہے۔وہ لنڈورے بنے ہوئے ہیں اور”پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں”ٹیلی فون کے ملازمین اور مزدوروں کی یونینوں کے اہم عہدیدار اور سر پھرے لیڈروں کو کبھی کا محکمہ سے دفع دور کر ڈالا گیاہے وہ مزدوروں کے مسائل پر اب ان کے ساتھ رابطہ تک بھی نہیں کرسکتے تمام دفاتر پر مسلح پہرے دار موجود ہیں اور راہنمائوں کا گیٹ پاس مکمل طور پر بند ہوچکا ہے۔حتیٰ کہ وہ دفاتر کے اندر کسی ذاتی کام کے لیے بھی نہیں جاسکتے جب تک اوپر والوں کی اجازت نہ ہو۔اور ان کی اشیر باد حاصل کرنا چاند پر پہنچ جانے کی طرح مشکل ترین ہے یعنی رابطے مکمل کٹ چکے ہیں۔
مکمل نو لفٹ کا عمل شروع ہے۔صرف وہی افسران اعلیٰ عہدوں پر موجود ہیں۔جو کمپنی کے مکمل ” جی حضوریے” ہیں۔اور مکمل و غیر مشروط تابعداری کی ہسٹری رکھتے ہیںمحکمہ سے نصف سے زائد ویسے ہی فالتو ملازم قرار دیکر نکالے جا چکے ہیں اور عوام”تنگ آمد بجنگ آمد “کی طرح فون ہی کٹوا تے رہتے ہیں کہ کیسی ہی معمولی خرابی کیوں نہ ہو ہفتوں تک اس کی مرمت و درستگی پر توجہ تک نہیں دی جاتی ۔یعنی سروس معطل ہو بھی تو مقررہ بل ماہانہ آتا رہتا ہے کہ لائن مین سٹاف اور جو کچھ مکینک قسم کے لوگ تھے ان میں سے بھی ساٹھ فیصد سے زائد کو محکمہ سے نکال ڈالا گیا۔پھر ہمارے حکمرانوں کی اس سے بڑی احمقانہ سوچ اور کیا ہوگی؟کہ فون تو تمام حکمرانوں اور افسروں کے حتیٰ کہ پولیس رینجرز اور افواج پاکستان کے سبھی افراد بالخصوص آرمی جنرل تک کے پاس رابطہ کے لیے پی ٹی سی ایل کے نمبرز لگے ہوئے ہیں اور ہمہ قسم سیکورٹی ہر وقت لیک ہورہی ہے جو کہ سیکورٹی فورسز کے لیے سخت نقصان دہ نہیں بلکہ مہلک ہے۔ایسی صورت جب چاروں طرف سے ملک دشمنوں سے گھرے ہوئے پاک وطن کے لیے سخت الارمنگ پوزیشن ہے اور ہماری دفاعی فورسز حتیٰ کہ ایٹمی تنصیبات پر لگے ہوئے فون بھی بیرونی کمپنی کی ملکیت میں جا چکے ہیں تو یوں سمجھو کہ ہمہ قسم معلومات ان کے پاس جمع ہو رہی ہیں۔
اگر کوئی ملک دشمن شخص یا کوئی بیرونی طاقتوں کا ایجنٹ چند فون ملازمین کوخرید لے تو وہ ہماری خفیہ معلومات تک آسانی سے رسائی حاصل کرسکتا ہے فون ٹیپ کرکے ہمیں سخت نقصان پہنچا سکتا ہے۔رقوم کی ادائیگی کے حوالے سے 10سال سے زائد عرصے سے تنازعات جاری ہیں۔کمپنی یہاں کے عوام سے مہنگی ترین مخصوص سہولیات انٹر نیٹ وغیرہ کے ذریعے بھاری رقوم وصول کرکے بیرون ممالک اپنے ذاتی اکائونٹس میں جمع کرواتی جارہی ہے۔
ٹیلی فون کی پرائیویٹائزیشن (جو کہ در اصل فروختگی ہی کادکھاوے اور دھوکے کانام ہے)اور جو رقوم کی ادائیگی طے پائی تھی اس کا ابھی تک1/4 حصہ بھی ادا نہیں ہوا۔واضح رہے کہ یہی ٹیلی کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ(محکمہ ٹیلی فون )تھاجو عرصہ درازسے ہمارے بجٹ کا1/3 حصہ پورا کر رہا تھا۔ جس سے ہم مکمل طور پر محروم ہو گئے ہیں اسلامی بھائی چارے کی خصوصی وجوہات کی بنا پر ہم ایسی عربی کمپنی کے خلاف کوئی ایسی ویسی کاروائی یا عدالتی احکامات بھی حاصل نہیں کرسکتے غرضیکہ ہم وہ پہلوان بن چکے ہیں جس کے ہاتھ پائوں باندھ کر اسے اکھاڑے میں پھینک دیا گیاہو۔اس طرح ہم چاروں شانے چت پڑے ہیں حتیٰ کہ زر مبادلہ کے ضیاع پر ہمیں چیخ و پکار کی بھی اجازت نہ ہے ہمارے ہاں پہلے ہی بیروزگاری کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لیتا کہ10سالوں میں ہزارو ں ملازمین کو”اتصالات “نے محکمہ فون سے نکال کر گھر کی راہ دکھادی ہے ہماری ملکی معیشت کی حالت دگرگوں ہو چکی ڈالرایوبی دور میں چار روپے اور اب114روپے کے اردگردگھوم رہا ہے۔ہم پہلے ہی سود در سود کے تحت کھربوں کے مقروض ہو چکے قرض کی قسطیں کیسے ادا ہوں گی؟مزید قرضہ ادھر ادھر سے بھاری سود پر لینا ہوگاکہ پہلے ہی ہر پیدا ہونے والا بچہ ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض ہو چکامگر عیش و عشرت کرتے ہوئے حکمران اپنی من مرضیاں کرتے ہوئے ایسے پراجیکٹ تیار کرتے ہیں جن کی کک بیک سے کسی نئی بیرونی لیکس میں رقوم جمع ہوتی رہیںخدا دیکھ رہا ہے!! کمزور طبقات کی محرومیوں کو دیکھ کر خدائی فیصلہ بھی جلد آئے گا!!