تحریر : امتیاز علی شاکر دنیا میں امن و امان کے قیام اور قانون کی بالادستی کیلئے باہمی تعاون اور اشتراک عمل کی مختلف صورتیں اہمیت کی حامل قدریں ہیں، یہ تعاون اور اشتراک عمل نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ہونا چاہئے، باہمی تعاون اور اشتراک عمل کی قوت شیطانی ذہن کی طرف مائل ہوجائے تو معاشرے فتنہ و فساد، شر ،ظلم اوردہشتگردی کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا”نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کام) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو (المائدہ، 5 : 2)”بے شک مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں کے درمیان مصالحت کراؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے” (الحجرات ٠١:٩٤)معاشرے میں بھائی چارے اورباہمی تعلقات میں بہتری کیلئے بے لوث محبت ،جذبہ درگزرجیسے جذبات کواُجاگرکیاجائے اورمنافقت کاخاتمہ ،غیبت جیسی برائی سے نفرت ،سودی نظام سے دوری،حق تلفی کاخاتمہ اوردیگروہ سارے عوامل جوبنیادی انسانی حقوق کی فراہمی میں رکاوٹ پیداکرنے کے اثباب بنتے ہیں کامعاشرے سے خاتمہ ہونا ضروری ہے۔کسی بھی معاشرے میںبھائی چارے کی بنیاد باہمی محبت اور اخلاق ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے اندر ارشاد فرمایا ”اور اللہ کی مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اسکی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے” (سورة:آل عمران٣: ٣٠١) نبی کریم ۖ کافرمان عالی شان ہے ”قسم ہے اس کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی چیزپسندنہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے” محبت کی بنیادیہ ہے کہ ایک دوسرے کی پسندنہ پسندکاخیال رکھاجائے اور دوسروں کے حقوق طلب کرنے سے قبل ہی اپنے فرائض کی ادائیگی کے ذریعے پورے کرنے چاہئے۔ عدل و انصاف کا راستہ اختیار کئے رکھناچاہئے۔
دین اسلام نے انسانی جذبات کے مطابق سب سے پہلے والدین،بیوی بچوں اوربہن بھائیوں کے بعد باقی رشتہ داروں ،دوستوں ،ہمسایوں اورپھردرجہ بدرجہ سب انسانوں کے ساتھ محبت واخلاق کے ساتھ پیش آنے اُن کے ساتھ تعائون کرنے کا حکم صادرفرمایاہے۔انسان کی اپنے والدین ،بیوی بچوں ،بہن بھائیوں ،رشتہ داروں اوردوستوں کے ساتھ محبت فطری ہے اس لئے خالق کائنات نے ہمارے لئے اورزیادہ آسانی اور سہولت فرماکر ان فطری رشتوں کے بعد دنیا کے تمام انسانوں خاص طور مسلمانوں پراپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ تعائون اورمحبت کا حکم فرمایاہے۔دنیامیں مختلف مذاہب اورنسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں اس لئے ہمیں دوسروںکے جذبات اورروایات کومدنظر رکھتے ہوئے حسن اخلاق سے پیش آکر سب کے دلوں میں اپنے لئے جگہ بناناچاہئے نہ کہ شدت پسندی کارویہ اختیار کرکے نفرتوں کے بیج بونے کی کوشش کرناچاہئے۔ معاشرے میںاخوت ، اتحاد اور یگانت قائم رکھنے کیلئے اچھے اخلاق کاہونابے حد ضروری ہے۔
ALLAH
متفق حدیث مبارکہ ہے کہ ” تم میں سے بہترین وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں”دورحاضر میں غیبت کوثواب کاکام سمجھ کراختیارکرلیاگیاہے ۔غیبت ایسی لعنت ہے جومعاشرے سے اخوت،بھائی چارے اوراتحاد کوایسے کاکھاجاتی ہے جیسے دیمک لکڑی کوچاٹ لیتاہے۔خودکوبلنداوردوسروں کوکم ترسمجھ کراپنے ہر عمل سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرنا کہ میں دوسروں سے بہتریامنفردہوں یہ رویہ بھی معاشرے میں بھائی چارے کا مخالف ہے۔ معاشرے میںاخوت وبھائی چارے کے قیام کیلئے دوسروں کو خود سے بہتریاکم ازکم اپنے جیساتصور کرنابہت ضروری عمل ہے۔ ایک دوسرے پر رحم کرنا ، ہمدردی کرنا، غلطیوں کو نظر انداز کرنا ، مروت برتنااور حقوق سے زیادہ فرائض کی فکر کرنا لازم ہے۔آپۖ نے فرمایا” اللہ اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا”قائداعظم ‘محمدعلی جناح نے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھاکہ ہم قرآن مجید کو اپنا آخری اور قطعی رہبر بنا کر شیوہ صبر ورضا پر کاربند ہوں اور اس ارشادِ خداوندی کو کبھی فراموش نہ کریں
تمام مسلمان آپس میںبھائی بھائی ہیں تو دنیا کی کوئی ایک طاقت یا کئی طاقتیں مل کر بھی مغلوب نہیں کرسکتیں ہم فتح یاب رہیں گے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو متحد ہونے کا، مل کرکفار کے خلاف صف آراء ہونے ، ایک دوسرے سے محبت کرنے، بھائی بندی ، درگزر کرنے ، ایک دوسرے کی عزت،جان ومال کے محافظ بننے، سختی سے منتشر ہونے اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے گریز کرنے کے احکامات صادرفرمائے ہیں ۔ہم ان احکامات پرعمل کریں تودہشتگردی سمیت ہرقسم کی فرقہ واریت جڑسے ختم ہوجائے گی
اللہ تعالیٰ کے احکامات اورآپۖ سے کی سنت مبارکہ پر عمل کرکے ہم معاشرے سے عدم برداشت،غیبت،سود،انتہاء پسندی،فرقہ واریت،ناانصافی،بے روزگاری،ناپ تول میں کمی،ناجائزمنافع خوری جیسی کئی اوربُرائیوں کا مقابلہ باآسانی کرسکتے ہیں۔آج بے سکون اور مضطراب انسانیت کو امن، عافیت اور سلامتی کی تلاش ہے ۔جولوگ واقع ہی امن وسکون حاصل کرناچاہتے ہیںوہ جھک جائیں مکین گنبد خضراء ۖکی چوکھٹ پر،ایمان والوں (مسلمانوں)کویہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ کریم آقاۖ کے دامان رحم وکرم کے ساتھ سچی اورادبی وابستگی کے بغیر امن وعافیت کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔