شکائتوں کا یا ڈھیر کچرے کا

Karachi

Karachi

تحریر : شیخ خالد ذاہد
میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ لاہور واقعی زندہ دل لوگوں کا شہر ہے۔ رواں دسمبر ہمیں زندہ دلوں کے شہر لاہور جانے موقع ملا۔ ہم نے اپنے ایک بہت عزیز دوست کو جبری میزبانی کا شرف بخشا جس کی وجہ ہم تقریباً بغیر اطلاع کہ ان کے مہمان جا بنے۔ طارق انجم صاحب (ہمارے عزیز دوست) اور انکے اہل خانہ نے ہماری مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور لاہوریوں کے زندہ دل ہونے کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ ان لوگوں کی بدولت ہمارہ لاہور کا دورہ انتہائی خوشگوار رہا۔

کراچی سمندر کی وجہ سے اپنی انفرادی حیثیت رکھتا ہے اور ہم سمندر کی وسعتوں اور گہرائیوں کہ گرویدہ بھی ہیں۔ پنجاب اپنی زرخیزی اور ہریالی کی وجہ سے ہمیشہ اپنی طرف متوجہ رکھتا ہے اور پھر پاکستان کی سیاست میں مرکزی صوبے کی حیثیت بھی رکھتا ہے کیونکہ مرکز میں حکومت وہی بنا سکتا ہے جہ پنجاب میں اکثریت سے کامیابی حاصل کرے۔ لاہور کے باغات اور ہریالی ہمیں ہمیشہ اپنی جانب متوجہ کئے رکھتی ہے۔ لاہور میں صفائی ستھرائی قابل ذکر رہی اور لاہور صفائی کہ معاملے میں تو کراچی شہر کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ ہم یہاں کوئی اپنے شہروں کہ درمیان موازنہ نہیں کر رہے۔ شہر لاہور ہو گجرانوالہ یا گجرات ہو راولپنڈی یا پشاور یا حیات آباد ہو کوئٹہ یا پشین ہو کراچی یا حیدرآباد ہو سب بہت پیارے اور اپنے ہیں۔ کراچی کی شامیں دنیا کہ دیگر ساحلی شہروں کی طرح ہمیشہ خوشگوار رہتی ہیں۔ میں جب بھی کراچی سے کہیں باہر جاتا ہوں مجھے یہ شامیں بہت ستاتی ہیں اور ان شاموں کو جادوئی شامیں کہا کرتا ہوں۔

شہرِ کراچی پچھلی تین دھائیوں میں یکسر تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔ ان تین دھائیوں میں ایک نسل آگے بڑھ گئی اور ایک نسل نے اسکی جگہ لی، مگر انتقالِ اختیار کی کوئی باقاعدہ تقاریب منعقد نہیں ہوئیں اور نا ہی کسی نے اس جانب توجہ دلاؤ قدم اٹھایا۔ وقت اور حالات کہ بے رحم سمندر میں غوطہ زن نسل بے راہ روی کا شکار ہوتی چلی گئی۔ ایک تعصب اور فرقہ واریت کا بازار گرم رہا تو دوسری طرف دیگر نشہ آور اشیاء نے رہی سہی کسر پوری کی۔ جو کچھ کراچی والوں نے دیکھا اور برداشت کیا اس کا چوتھائی حصہ بھی پاکستان کے کسی دوسرے شہر والوں نے دیکھنا تو دور کی بات ہے محسوس بھی نہیں کیا ہوگا۔ پورے پاکستان سے سیاسی ہو یا مذہبی جماعتیں جلسے جلوسوں کیلئے شہر کراچی کو ہی چنا جاتا ہے، جن کی وجہ سے شہرِ کراچی کی بدنامی میں چار چاند لگ گئے۔ بین الاقوامی شہر ہونے کی وجہ سے اس شہر میں نامی گرامی دہشت گردوں نے بھی اپنے ٹھکانے بنائے اور علاج معالجے بھی کروائے (جیسا کہ بتانے والے بتا چکے ہیں)۔ کراچی میں سیاسی کھینچا تانی کا سلسلہ جاری و ساری ہے بلکہ آجکل تو زیادہ زور و شور ہے۔ سندھ کی ہمیشہ سے نمائندہ جماعت نے کبھی بھی کراچی کو نہیں اپنایا۔ صوبہ سندھ شہری اور دیہی تقسیم کی سرد جنگ میں پستہ ہی چلا گیا۔

Karachi Pile Garbage

Karachi Pile Garbage

آج کراچی کی اہم ترین شاہراہوں پر موٹر سائیکل رکشہ باآسانی دیکھا جا سکتا ہے کیا ایک بین الاقوامی شہر کی سڑکوں کو یہ زیب دیتا ہے۔ باادب لوگوں کا شہر کراچی دیکھتے ہی دیکھتے بے ادب لوگوں کی آماجگاہ بنتا چلا گیا۔ تماشا دیکھنے والے کرنے والوں کے ساتھ کھڑے رہے اور شہرِ کراچی اخلاقی پسماندگی کا شکار ہوتا چلا گیا۔ کراچی کہ باسی اپنے شہر سے بے پناہ محبت کرتے ہیں مگر بد قسمتی سے محبت کا عملی مظاہرہ کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ سمندر کا جو عشق تھا وہ اپنی جگہ جوں کا توں ہی ہے، کراچی میں ہر وقت ایک بھاگ دوڑ لگی ہے، جس کو دیکھو جلدی میں ملتا ہے جب کہ پلٹ کر دیکھو تو وہ وہیں کا وہیں کھڑا ہوتا ہے۔ کیا معلوم کس چیز کی جلدی ہے شائد ہم لوگ حالات و واقعات سے بہت خوفزدہ ہوگئے ہیں۔

روشنیوں کا شہر کراچی پہلے اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا کسی نے دھیان نہیں دیا کوئی پرسانِ حال نا آیا۔ سب مردار کھانے کے شوقین نکلے اور کراچی کو مردہ ہوتے دیکھتے رہے۔ جب عروس البلاد کراچی اندھیروں میں ڈوب گیا ہر طرح سے مفلوج ہوگیا۔ جگہ جگہ تعفن زدہ کچرے کے ڈھیر لگ گئے اور نکاسی آب کا صدیوں پرانا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا پانی کی ترسیل اور تقسیم کا کوئی نظام باقی نہیں بچا پھر کہیں جاکہ نام نہاد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ان انتخابات سے بھی شہرِ کراچی کے باسیوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ کراچی کی صورتحال کسی سرکاری ہسپتال میں انتہائی نگہداشت وارڈ میں جگہ نا ملنے والے مریض کی سی ہوگئی ہے۔ یہ گندگی جو ابتک کراچی والے چھپائے بیٹھے تھے باہر پھینک دی ہے اب وہ ایسی تمام غلاظت سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ دراصل یہ کچرے کے ڈھیر نہیں ہیں یہ عرصہ دراز سے دلوں میں پوشیدہ شکائتوں کے ڈھیر ہیں۔کراچی کے رہائشی انتظار میں ہیں کہ کون ان کے مسائل حل کرنے کا بیڑہ اٹھائے گا۔ اب جو کوئی بھی اس گندگی سے اس غلاظت سے کراچی کو پاک کرے گا وہ کراچی والوں کی ان کہی شکائتوں کا ازالہ کرے گا اور دکھی دلوں میں اپنی جگہ بنائے گا۔

ہم امید کرتے ہیں کہ شہرِ کراچی کی رونقیں اور رعنایاں بہت جلد بحال ہوجائینگی۔ شہریوں کی شکائتیں سنی جائینگی اور کراچی والوں پر کوئی سیاسی داؤ پیچ نہیں آزمایا جائے گا اور انکی پاکستانیت پر بھی کوئی سوال نہیں اٹھایا جائے گا۔ یہ شہر پاکستان کی شہ رگ ہے اس پر سیاست بند ہونی چاہئے اور بلدیاتی اداروں کو بھی سیاسی چھتری سے آزادی ملنی چاہئے۔

Khalid Zahid

Khalid Zahid

تحریر : شیخ خالد ذاہد