میں کیا کروں؟

What I Do

What I Do

تحریر : آمنہ نسیم
میں کیا کروں ؟ آج یہ سوال ہر انسان کا ہے چاہے وہ چھوٹا ہے یا بڑا ۔یوں لگتا ہے کہ آج کا انسان خود سے بھی بھاگ رہا ہے ۔جب اسے کچھ پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے میں کیا کروں ؟قوم کے مایوس کن حالات دیکھ کر اب حوصلے پست ہوگئے ہیں۔سیاسی انتشار، بدامنی، مہنگائی، بے روزگاری، ہر دوسرے گھر میں بیٹھی بن بیاہی بہن بیٹیاں، ہر دوسرے ہفتے ہونے والے خود کش حملے، یہ سب میرا حوصلہ پست کردیتے ہیں۔ اب تو جینے کا دل نہیں چاہتا، مجھے بتائیں میں کیا کروں ؟سوچا جائے تو یہ سوال بجا بھی ہے ۔قوم کے مایوس کن حالات کو دیکھتے ہوئے کوئی ہمت کرکے نوکری کی تلاش کے لیے نکلتا ہے تو بے روزگاری ہر موڑ پر منہ چڑھاتی نظر آتی ہے اور اگر وہی انسان تھکا ہوا گھر میں آتا ہے تو گھر کے مسلوں کو دیکھ کر الجھ جاتا ہے کہ آخر وہ کرے بھی تو کیا کرے ؟جب یہی سوال اپنوں سے وہ کرتا ہے تو ہم لوگ اسے بجائے حوصلہ ہمت دینے کے مایوسی کی ایک اور راہ دیکھا دیتے ہیں۔

”محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جب سیدنا ابوموسی اشعری اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کو یمن کے گورنر بنا کر بھیجا تو انہیں نصیحت فرمائی، “لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا، انہیں تنگی میں نہ ڈالنا۔ انہیں تسلی و تشفی دینا، دین سے بے زار مت کرنا اور آپس میں اتفاق سے کام کرنا۔“‘ ہمارے مایوس کن رویے میں ہمارے اپنوں کا رویہ بھی شامل ہوتا ہے ہم بجائے تسلی و تفشی دینے کے لڑنے جھگڑنے پر تیار ہوجاتے ہیں کہ تم نے کام نہیں ڈھونڈا کیوں ؟ تم سارا دن باہر کیا کرتے رہے ؟ ساری دینا کام کرتی ہے کیا بس تمہارے لیے کام ختم ہونگے ہیں ؟ تمکو ہم روٹی تب تک دینگئے جب تم کما کر لاو گئے ۔اس طرح کے بہت سے سوالات ذہن کو ماوف کردیتے ہیں اور ذہن کا ماوف ہوجانا ہی مایوسی کی طرف بڑھتا ہوا پہلا قدم ہے جہاں پر حوصلہ کی بجائے تنقید کا سامنے کیا جاتاہو اور ایسی تنقید جس کا کوئی وجود نہیں ہوتا ہے ۔یہ مایوسی ہمیں تب ہی زیادہ ہوتی ہے جب ہم کسی دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔

میں کیا کروں ؟ اگر یہ سوال ہم کسی دوسرے سے کرنے کی بجائے اللہ تعالی کے احکامات پر غور کرتے ہوئے خود سے کرے تو یقینا مایوسی ہم کو چھوکے بھی نہیں گزرے گئی۔انسان اپنا سب سے بڑا دشمن خود ہی ہے ۔اور واقعی یہ سچا ہے ۔نفسیات کے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ انسان پیدائشی طور پر جن صلاحیتوں کا مالک ہے عام طور پر وہ ان کاصرف دس فی صد حصہ استعمال کرتا ہے۔اس تحقیق کا ذکر کرتے ہوئے ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ولیم جیمس نے کہا:”جو کچھ ہمیں بننا چاہیے وہ کچھ ہم بننے کے لیے تیار نہیں۔” ہم کودوسروں سے شکایت ہے کہ وہ ہم کو ہمارا حصہ نہیں دیتے۔مگر سب سے پہلے ہم کو خود اپنے آپ سے شکایت ہونی چاہیے کہ قدرت نے پیدائشی طور پر ہمارے لیے دنیا میں جو ترقیاں اور کامیابیاں مقدر کی تھیں،ہم اس کے مقابلہ میں ایک بہت کمتر زندگی پر قانع ہو کر رہ گئے ہیں۔

Life

Life

ہر انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے خود اپنی طرف دیکھے۔کیوں کہ انسان آپ ہی اپنا دوست بھی ہے اورآپ ہی اپنا دشمن بھی۔آدمی کے باہر نہ اس کا کوئی دوست ہے اورنہ کوئی اس کا دشمن۔آدمی اپنی امکانیات کو استعمال کر کے کامیابی حاصل کرتا ہے اور جب وہ اپنی امکانیات کو استعمال نہ کرے تواسی کا دوسرا نام ناکامی ہے۔تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ کوششوں کا استعمال صحیح رخ پرہو۔غلط رخ پرکوشش کرنا اپنی قوتوں کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔پانی کے قطرے قطرے سے پہاڑ میںبھی سوراخ ہوجاتاہے تو پھر انسان اگر کوشش کرتا رہے تو کیا وہ کبھی کامیاب نہ ہوگا ۔ہم ایسا کرتے نہیں ہیں ہم دوسروں پر انحصار کرکے خود کو مایوسی کے کنارے تک لے جاتے ہیں اور پھر یہ سوال سراپا اذیت بن کر اٹھتا ہے کہ میں کیا کروں؟ قرآن مجید ایسے حالات میں انسان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ صبر سے کام لے۔ صبر کو ایک منفی عمل سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ایک نہایت ہی مثبت عمل ہے۔ جب انسان صبر کے اس امتحان میں پورا اترتا ہے تو پھر خدائی قوتیں اس کی حمایت میں اتر آتی ہیں۔ اللہ تعالی کی مدد اسے حاصل ہو جاتی ہے۔

قرآن مجید یہ بتاتا ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ مشکلات آسان ہونے لگتی ہیں اور آہستہ آہستہ انسان حالات کے گرداب سے نکل آتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم جیسی ہستی کو بھی یہی صورتحال بارہا پیش آئی۔ ایسے موقع پر آپ نے جو رویہ اختیار فرمایا وہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ مشکل حالات میں آپ ہمیشہ اپنے رب کی طرف رجوع کرتے اور نماز ادا کرتے۔ اولاد کی وفات کا صدمہ ہو یا نادان مخاطبین کی جانب سے پتھراو ¿، منافقین کی ریشہ دوانیاں ہوں یا کفار کے حملے، ان سب حالات میں آپ اپنے رب کے حضور جا کھڑے ہوتے اور نماز سے مدد طلب کرتے۔ اللہ تعالی نے تمام مشکلات کو دور فرمایا اور آپ کی عظیم جدوجہد کے نتیجے میں آپ کا پیغام پوری دنیا میں پھیل گیا۔ صبر کے امتحان میں انسان کو آزمانے کے بعد اسے ایک اور طرح کے امتحان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ساری دنیا گویا اس کی موافق ہو چکی ہے، وہ جس طرف جاتا ہے کامیابی اس کے قدم چومتی ہے، ہر روز اسے کوئی اچھی خبر سننے کو ملتی ہے۔

Destination

Destination

دن بدن وہ ایک نئی منزل دریافت کرتا ہے اور حالات اس کے حق میں ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال افراد کو بھی پیش آتی ہے اور قوموں کو بھی۔ بعض نادان لوگ ایسے موقع پر اپنی حدود سے نکل جاتے ہیں اور اللہ تعالی کی نافرمانیوں بالخصوص شراب و شباب کے ذریعے خوشی منانے لگتے ہیں۔ وہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ خوشیاں ہمیں اپنی کاوشوں سے حاصل ہوئی ہیں۔ قرآن مجید اس معاملے میں بھی ہماری راہنمائی کرتا ہے اور ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ایسے موقع پر ہمیں اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ان نعمتوں کو اللہ کی جانب سے سمجھتے ہوئے اس کی نافرمانی اور کفران نعمت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سیرت سے ہمیں اسی کی راہنمائی ملتی ہے۔ آپ کو جب بھی کوئی خوشی ملتی، آپ اس کے رد عمل میں اپنے رب کے حضور نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اور اپنے رب کا شکر ادا کرتے۔ آپ کو غالباً سب سے بڑی خوشی اس وقت ملی جب آپ ایک عظیم فوج کی قیادت کرتے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر کسی غرور و تکبر اور شان و شوکت کے اظہار کی بجائے آپ کا سر اپنے رب کے حضور اس قدر جھکا ہوا تھا کہ آپ کا سر مبارک اونٹ کے کوہان سے ٹکرا رہا تھا۔ صبر اور شکر کی ان آزمائشوں سے وہی لوگ کامیابی سے گزرتے ہیں جو اپنے رب کو یاد رکھتے ہیں اور اس یاد کے لئے نماز قائم کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔

تحریر : آمنہ نسیم