اب پشاور کے چرچ میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقع کے بعد قوم اور حکومت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ 22 ستمبر 2013 کو پشاور کوہاٹی گیٹ کے قریب آل سینٹس چرچ میں ہونے والی دہشت گردی کے واقع کے پسِ پردہ امریکا اور بھارت (یعنی امریکی بلیک واٹر اور بھارتی ایجنسیوں میں شامل وہ امریکی آئی ایس آئی اور بھارتی دہشت گرد طالبان) ملوث ہوسکتے ہیں جو دنیا بھر میں پاکستان کا امیج خراب کرنا چاہتے ہیں اِس سے قبل بھی پاکستان میں مسلمانوں کی عبادات گاہوں اور اجتماعات میں جتنے بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں اِن میں متذکرہ عناصر ہی کارفرما رہے ہوں گے، یہ اور بات ہے کہ ہمارے کرتا دھرتا اِن کا نام لینے سے کتراتے رہے ہیں۔
مگرساری پاکستانی قوم یہ جانتی ہے کہ ہمارے یہاں اِس قسم کی ہونے والی ہر دہشت گردی کے پیچھے امریکا، اسرائیل اور بھارت کے زرخرید دہشت گرد ملوث رہے ہیں۔ آج اگر ہم پشاور کے چرچ میں ہونے والے واقع کے وقت اور لمحات کا تعین کرتے ہوئے جائزہ لیں تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجائے گی کہ پشاور چرچ میں ملک دشمن عناصر نے اس وقت اپنی وحشیانہ کارروائیوں کو عملی شکل دی جب اِسی روز وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ایک مختصر وفد کے ساتھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 68 ویں سالانہ اجلاس میں شرکت کرنے کے لئے اپنے ایک ہفتے کے دورے پر نیویارک کے لئے روانہ ہوئے، اور یہ 23 ستمبر کو نیویارک پہنچ گئے، جہاں اِنہیں 24 ستمبرکو امریکی صدر اوباما کا جنرل اسمبلی سے خطاب سنناتھا۔
اور امریکی صدر کی جانب سے سربراہانِ مملکت و حکومت کے لئے دیئے گئے استقبالیہ میں بھی شرکت کرنے تھی اور اِس ملاقات کی ایک اور خاص بات وہ یہ تھی کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات کے دوران پاکستان میں ڈرون حملوں کو رکوانے اور اِس سے پیدا ہونے والی صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے اِن قائل کریں گے کہ وہ پاکستان میں ڈرون حملوں کے جاری سلسلوں کو فی الفورر کوائیں اور گزشتہ دنوں پاکستان میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں کی روشنی میں طالبان سے پرامن مذاکرات کی پیشکش کی حوصلہ افزائی کریں اور اِسی طرح پاکستان کی جانب سے طالبان سے پرامن مذاکرات کی پیشکش کو آگے بڑھانے کے لئے ڈرون حملے روکیں، اوراِس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نواز شریف کو امریکی صدر مسٹر بارک اوباما کو اِس کے لئے آمادہ کرنا تھا۔
United Nations
اور 27 ستمبر کو نیویارک میں ہونے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 68 ویں اجلاس سے خطاب بھی کرنا ہے اور اِس کے علاوہ نیویارک میں قیام کے دوران اپنے پروگرام کے مطابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو جن عالمی شخصیات سے دوطرفہ ملکی امور پر گفتگو کرنی ہے ان میں نمایاں اور اہم شخصیات میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ ہیں یہ ملاقات 29 ستمبر کو متوقعہ ہے اِس ملاقات سے متعلق ہمارے یہاں ایک خام خیال یہی کیا جارہاہے کہ اِس ملاقات کے دوران پاک بھارت وزرائے اعظم کئی اہم نکانات پر نتیجہ خیز باتیں اور فیصلے کریں جن سے مستقبل قریب میں پاک بھارت خوشگوار ماحول پیدا ہونے کی قوی امیدیں ہیں اِس میں کوئی شک نہیں کہ پشاور کے چرچ میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے بھارت ملوث ہوسکتاہے۔
کیوں کہ اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے رواں سال جون میں جب چین کا دورہ کیا تھا، اس کے چند روز قبل دہشت گرد عناصر نے دیامر میں چینی باشندوں کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنا کر پاک چین تعلقات کو خراب کرنا چاہا تھا، مگر اِس سازش کو ہمارے مخلص دوست چینی بھی سمجھتے ہیں، اِس واقع کے پیچھے بھارت کے ایجنٹ اور بھارتی ایجنسیاں شامل ہیں جویہ نہیں چاہتیں کہ پاک چین تعلقات میں مضبوطی آئے، اور اسی طرح آج جب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 68 ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرنے والے ہیں جہاں کہ دہشت گردی سے متاثر ہ پاکستان کا مقدمہ پیش کریں گے، اور عالمی براردی کو پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات سے آگاہ کرکے اپناہم خیال بنائیں گے۔
تو بھارتی دہشت گردوں نے پشاور کے چرچ کا واقع رونما کر کے ساری دنیا میں پاکستان کا امیج خراب کرنے کی سازش تیار کی۔ اوریوں اِدھر پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے دشمن امریکی بلیک واٹراور بھارتی ایجنسیوں میں شامل طالبان دہشت گردوں نے پشاور کوہاٹی گیٹ کے قریب آل سینٹس چرچ میں 2 خودکش دھماکے کر کے 83 افرادکو جان بحق اور 150 کے قریب افراد کو زخمی کر دیا، یوں امریکی اور بھارتی ایجنسیوں میں شامل طالبان نے اپنی یہ وحشیانہ کارروائی عین اس وقت کی جب کوہاٹی گیٹ چرچ میں دعائیہ تقریب کے بعد مسیحی برداری کے لوگ جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد تھی چرچ سے باہرنکل رہے تھے، اس وقت ایک حملہ آورنے فائرنگ کرکے خود کو اڑالیا۔
pakistan
پہلے دھماکے کے بعد حواس باختہ افراد خود کو سنبھال بھی نہ پائے تھے کہ دوسرے بمبارنے خود کو اڑالیا، یہ دھماکہ اِس قدر شدید تھا کہ اِس سے انسانی اعضا دور تک بکھرگئے، جس کے نتیجے میں 83 افرادجان بحق اور 150 کے لگ بھگ زخمی ہوئے، اطلاعات ہیں کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق دونوں دھماکوں میں سولہ کلو گرام بارود استعمال کیا گیا ہے، اِس واقع کے بعد وفاقی سمیت صوبائی حکومتوں نے بھی تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا تو وہیں ملک بھر کے چرچ اور مشنری تعلیمی ادارے بھی تین دن تک بند کر دیئے گئے اور ملک بھر میں قیامت سے پہلے قیامت کی نظر ہوجانے والی غم سے نڈھال مسیحی برادری کے ساتھ اظہارِ یکجتی کے طور پر اِن کے غم اور احتجاجوں کے جاری سلسلے میں سارا پاکستان شامل ہوا۔
آج 23 ستمبرہے ابھی دن کے تین بج رہے ہیں، اِن گزرتے لمحا ت میں میں جب اپنا یہ کالم تحریر کر رہا ہوں، ابھی ملک بھر سے بس یہی اطلاعات آرہی ہیں، کہ مسیحی برادری کا احتجاج جاری ہے، اور جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے، احتجاج میں شدت آتی جارہی ہے، اِس میں کوئی شک نہیں کہ مسیحی برادری کا اِس واقع میں بڑاجانی نقصان ہواہے، مگر اب اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ احتجاج کو پرتشدت بنا دیا جائے اور نجی و سرکاری انلاک کو نقصان پہنچا کریا معصوم شہریوں کو پریشان اور مارکر یا زخمی کر کے اپنے جانی نقصان کا ازالہ کیا جائے، لگتاہے کہ جیسے اِن احتجاجوں کی آڑ میں ملک دشمن عناصر پاکستان میں انارگی پھیلانا چاہتی ہیں، اب ہم سب پاکستانیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
کہ وہ اغیار کی اِن سازشوں کو سمجھیں اور اِنہیں کامیاب نہ ہونے دیں، اور اپنی صفحوں میں ملی یکجہتی برقرار رکھتے ہوئے، اِن کی ہر اس ناپاک سازش کا ناکام بنادیں جس کی آڑمیں ہماری صفحوں میں موجودملک دشمن عناصر اپنے گھناونے عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں۔ آج فروعی، لسانی، سیاسی، اور نظریاتی اکائیوں میں بٹ کر ا ور الجھ کرنسانیت اتنی بے رحم اور سنگدل ہوگئی ہے، کہ اب دنیا کو اِس کا احساس امریکا کے بعد میرے دیس پاکستا ن میں بھی ہماری آستینوں میں چھپے امریکا جیسے وحشی ان اِنسان دشمن سانپوں کی وحشیانہ کارروائیوں سے بھی ہونے لگاہے جو کئی عرصے سے ہمارے ہی دودھ پر پل رہے ہیں، اور اب یہ تندرست و توانا ہو گئے ہیں، جب ہی تو اِنہوں نے خو دکو منوانے کے لئے ایک دہائی سے میرے ملک میں اپنی اِنسانیت سوز کارروائیوں میں مصروف کر لیا ہے۔
اوراب تو حد یہ ہوگئی ہے کہ جیسے اِنہوں نے اِسلام اور قرآن و حدیث کی اصل تعلیما ت کو بالائے طاق رکھ دیاہے مگر افسوس تو اِس با ت کا ہے کہ اب انہوں نے اسلام کا لبادہ ارھ کر صرف اپنی خودساختہ تعلیمات کے پرچار کے خاطر مسجد، مدرسہ، مندر، امام بارگاہ، مزار، چرچ، جنازے، تعلیمی ادارے اور مذہبی اجتماعات سمیت دیگر ادیانِ کل کی عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنا شروع کر دیا ہے اپنی اِن وحشیانہ کارروائیوں میں معصوم 13 انسانوں بچوں، خواتین، بوڑھے، جوان اور ہر عمر کے لوگوں کے مقدس خون سے ہولی کھیل کر اپنے عزائم کی تکمیل اور اپنے وجود کو برقرارر کھا ہوا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ قوم اور حکومت کو دیرسے صحیح مگر اپنی بقااور سا لمیت کے خاطر یہ فیصلہ ضرور کرنا ہوگا، کہ ملک کو ہر صورت میں اغیار کے یاراور اِن کے ایجنڈوں سے پاک کرنا ہوگا، یاد رکھو اگر ابھی ہم نے ایسانہ کیا تو پھر یہ ملک دشمن عناصر ہمیں یوں ہی مارتے رہیں گے اور ایک ایک کرکے ہم یوں ہی مرتے رہیں گے۔ تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم [email protected]